بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کمپنی کا نام استعمال کرکے نقلی مصنوعات بنا کر فروخت کرنے کاحکم


سوال

ایک کمپنی ہے جو ڈوپلیکیٹ(اصل کے نقل بنا کر ) شیمپو کے ساشے،چائے اور سرف  وغیرہ بناتے ہیں،میں اس کمپنی سے سامان اٹھاتا ہوں اور  سپلائی کرتاہوں،یعنی وہی چیزیں دوسری دکانوں کو سپلائی کرتا ہوں ،اب پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح کے   سپلائی کے طور پر کام کرنا کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اصل کا نقل بنا کراصل کمپنی کا تجارتی نام ،اوراس کا ٹریڈمارک استعمال کرنادھوکہ ہے جوکہ شرعاً جائز نہیں ہے،اور اس کی سپلائی کا کام کرنا بھی درست نہیں ہے،کیوں کہ یہ کسی اور کو دھوکہ دینے کا ذریعہ بن سکتا ہے،اور شریعت میں یہ بھی جائز نہیں ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ." ﴿المائدة: ٢﴾

احكام القرآن للجصاص  میں ہے:

"وقوله تعالى: {ولا تعاونوا على الأثم والعدوان} نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(سورۃ مائدہ، ج:3، ص:296، ط: دار احیاء التراث العربی)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"(‌إنكم ‌إذا ‌مثلهم). فكل من جلس في مجلس «1» معصية ولم ينكر عليهم يكون معهم في الوزر سواء، وينبغي أن ينكر عليهم إذا تكلموا بالمعصية وعملوا بها، فإن لم يقدر على النكير عليهم فينبغي أن يقوم عنهم حتى لا يكون من أهل هذه الآية. وقد روي عن عمر بن عبد العزيز [رضي الله عنه «2»] أنه أخذ قوما يشربون الخمر، فقيل له عن أحد الحاضرين: إنه صائم، فحمل عليه الأدب وقرأ هذه الآية (‌إنكم ‌إذا ‌مثلهم) أي إن الرضا بالمعصية معصية."

(سورة النساء (4): الآيات 140 الى 141، ج:5، ص:418، ط: دار الكتب المصرية)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ‌غشنا فليس منا."

(كتاب البيوع والأقضية‌‌، ما ذكر في الغش، ج:13، ص:19، ط: دار كنوزالرياض)

شرح النووی میں ہے:

" قوله صلى الله عليه وسلم (البيعان بالخيار ما لم يتفرقا فإن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما) ‌أي ‌بين ‌كل ‌واحد ‌لصاحبه ‌ما ‌يحتاج ‌إلى ‌بيانه من عيب ونحوه في السلعة والثمن وصدق في ذلك وفي الإخبار بالثمن وما يتعلق بالعوضين ومعنى محقت بركة بيعهما أي ذهبت بركته وهي زيادته ونماؤه."

(‌‌كتاب البيوع، باب من يخدع في البيع، ج:10، ص:186، ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(فروع) لايحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام إلا في مسألتين: الأولى الأسير إذا شرى شيئًا ثمة ودفع الثمن مغشوشًا جاز إن كان حرًّا لا عبدًا.  الثانية يجوز إعطاء الزيوف والناقص في الجبايات، أشباه."

(‌‌كتاب البيوع، باب خيار العيب، ج:5، ص:47، ط: سعید)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"لأن فعل المحرم معصية، والإعانة على ‌المعصية ‌معصية."

(‌‌كتاب المناسك، باب جزاء الصيد، الذي يرخص للمحرم من صيد البحر، ج:4، ص:96، ط: دار المعرفة)

التنبیہ علی مشكلات الہدایہ میں ہے:

"أن المعصية بفعل المستأجر في البيت فالإعانة على ذلك معصية لأن الإعانة على ‌المعصية ‌معصية."

(‌‌كتاب الكراهية، ج:5، ص:800، ط: مكتبة الرشدالسعودية)

 فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144504101084

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں