بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرکٹ کھیلنے اور اس میں پیسہ لگانے کا حکم


سوال

آج کل ہر کوئی کرکٹ کا شوقین ہے اور کرکٹ میں لوگ پیسے لگاتے ہیں،  مجھے بھی یہ پتاہے کہ یہ کام جواری ہے ، لیکن علماء اس کے بارے میں بالکل خاموش ہیں ، اس میں آپ  کی کیا رائے ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  کسی بھی قسم کا کھیل کھیلنا درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے: 

1: وہ کھیل بذاتِ خود جائز کھیل ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔2:اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت  ہو،  مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ۔3:  کھیل میں غیر شرعی امور  (مثلاً جوا وغیرہ)  کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔4:کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

       ان اصولوں   کی رو  سے موجودہ دور کے اکثر و بیشتر کھیل ناجائز اور غلط نظر آتے ہیں، اس لیے کہ بعض کھیل تو ایسے ہیں کہ  جن میں ایسے لباس کا  انتخاب کیا جاتا ہے جس سےانسان کے اعضاءِ مستورہ نظر آتے ہیں، اور بعض ایسے ہیں جس سے اعضاء مستورہ کا حجم نمایاں ہوتا ہے، بعض ایسے ہیں جن میں قمار اور جوا پایا جاتا ہے، اور بعض میں مرد وعورت کا اختلاط ہوتا ہے، بعض ایسے ہیں  جن  میں  نہ کوئی دینی  منفعت ہوتی ہے اور نہ ہی دنیوی، مزید  یہ کہ جیسے ہی ان کھیلوں کا  زمانہ آتا ہے ، کھیل کے شوقین حضرات اپنے شرعی فرائض چھوڑ کر  اسی میں مشغول ہوجاتے ہیں ، کھیل کا ایسا ذوق پیدا کردیا گیا ہے کہ گویا ہمارے نوجوان  صرف  کھیلنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں ، کھیل ہی کو زندگی کا بنیادی مقصد بنادیا گیا ہے،  اور اب تو حالت یہ ہوچکی ہے کہ  ہر ملک میں مردوں کی طرح خواتین کوبھی کھیل کے میدان میں  مردانگی دکھانے کے لیے لایا گیا ہے، پھر میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں ان کی  تشہیر،اور نشر واشاعت کرکے نسوانیت  کی اہانت اور تذلیل کی جارہی ہے،گویا پوری قوم کھیل کے لیے پیدا ہوئی ، اور اس کھیل ہی کو  پوری زندگی کا اہم ترین کارنامہ فرض کرلیا گیا ہے،  کھیل کا ایسا مشغلہ تو مردوں کے لیے بھی جائر نہیں ، چہ جائے کہ عورتوں کے لیے جائز ہو، البتہ  اگر اس میں مذکورہ خرابیاں نہ پائی جائیں، بلکہ اسے بدن کی ورزش ، صحت اور تن درستی باقی رکھنے کے لیے یا کم از کم طبعیت کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے کھیلا جائے، اور اس میں غلو نہ کیا جائے ،  اسی کو مشغلہ نہ  بنایا جائے،  اور ضروری کاموں میں اس سے حرج نہ پڑے تو پھر جسمانی ورزش کی حد تک  کرکٹ کھیلنے کی گنجائش ہوگی۔

باقی کرکٹ میں پیسہ لگانے کا حکم یہ ہے کہ کرکٹ کھیلنے میں یہ شرط رکھنا کہ  ہر ٹیم ایک مخصوص رقم جمع کرائے گی اور پھر اس رقم سے ٹورنامنٹ کے اخراجات نکالنے کے بعد  جو رقم بچے گی وہ جیتنے والی ٹیم (ونر ٹیم) کو ملے گی، تو کرکٹ کھیلتے وقت اس طرح کی شرط "قمار" یعنی جوے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز وحرام ہے،جس سے بچنا ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے۔

اس کی  جائز صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اگر  مختلف ٹیموں میں مقابلہ کروانے کی کوئی علیحدہ ٹورنامنٹ کمیٹی ہو  جس کا تعلق کسی ٹیم سے نہ ہو،  اور وہ کرکٹ ٹورنامنٹ کمیٹی ہر ٹیم سے متعین رقم مقابلہ میں داخلہ کی فیس کے طور پر  (انٹری فیس) وصول کرے اور یہ رقم (انٹری فیس) کمیٹی کو مالک بنا کر دے دی جائے، پھر ٹورنامنٹ کمیٹی اس جمع شدہ رقم میں سے ٹورنامنٹ کے اخراجات کرے اورجیتنے والوں کو یا کھیل میں اچھی کارکردگی دکھانے والوں کو حسبِ صواب دید انعام دے اور اس بارے میں مکمل با ختیار ہو کہ کم یا زیادہ جتنا چاہے انعام مقر رکرے اور چاہےنقد رقم انعام میں دے یا کوئی ٹرافی وغیرہ دے تو یہ صورت جائز ہے ، بشرطیکہ مقابلہ اور کھیل میں مذکورہ  شرعی حدود سے تجاوز  نہ کیا جائے۔

       روح المعانی فی تفسیرالقرآن العظیم میں ہے:

"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن: كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها". 

(سورۃ لقمان، رقم الآیۃ:6، ج:11، ص:66، سورۃ لقمان، ط:دار الکتب العلمیۃ)

تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

"فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام اور مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني:  ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه‘‘.

( کتاب الرؤیا، ج:4، ص:435،  ط:  دارالعلوم کراچی)

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

"فإن شرطوا لذلك جعلاً، فإن شرطوا الجعل من الجانبين فهو حرام.

وصورة ذلك: أن يقول الرجل لغيره: تعال حتى نتسابق، فإن سبق فرسك، أو قال: إبلك أو قال: سهمك أعطيك كذا، وإن سبق فرسي، أو قال: إبلي، أو قال: سهمي أعطني كذا، وهذا هو القمار بعينه؛ وهذا لأن القمار مشتق من القمر الذي يزداد وينقص، سمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويستفيد مال صاحبه، فيزداد مال كل واحد منهما مرة وينتقص أخرى، فإذا كان المال مشروطاً من الجانبين كان قماراً، والقمار حرام، ولأن فيه تعليق تمليك المال بالخطر، وإنه لا يجوز.

وإن شرطوا الجعل من أحد الجانبين، وصورته: أن يقول أحدهما لصاحبه إن سبقتني أعطيك كذا، وإن سبقتك فلا شيء لي عليك، فهذا جائز استحساناً، والقياس أن لايجوز."

(كتاب الكراهية والاستحسان، فصل فى المسابقة، ج:5، ص:323، ط:دارالكتب العلمية)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144503102900

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں