بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ کی دوکان زائد کرایہ پر دینے کا حکم


سوال

میں نے  اپنی دکان عبد اللہ  کو تین لاکھ روپے ایڈوانس لے کرماہانہ 50000 کرایہ  پر دی  ،پھر کرایہ دار نے اس دکان میں الماریاں بنواکر کاروبار شروع کردیا، کچھ عرصہ بعد کرایہ دار نے وہ دکان آگے اپنے رشتہ دار کو کرایہ پر دے  دی  اور ہمیں کہا کہ آپ کو کرایہ میں ہر مہینے دوںگا، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے،آپ کرایہ مجھ سے لے لینا۔

تقریباً پانچ سال بعد ہم نے دکان خالی کروائی تو  معلوم ہوا کہ عبد اللہ (جس  نے دکان  ہم سے کرایہ پر لی تھی)  نے ہمیں تو 50000 کرایہ دیا تھا،لیکن اس نے جس کو کرایہ پر دی تھی اس سے زیادہ کرایہ وصول کرتا تھا،جب  ہم نے عبد اللہ سے دریافت کیا تو اس نے کہا:

" میں نے آپ کو ایڈوانس دیا اور اپنے پیسوں سے الماریاں بنوائی  اور میرے رشتہ دار کرایہ وقت پر نہیں دیتے تھیں،اس لیے میں اضافی کرایہ لیتا تھا"

کیا اس کا اضافی کرایہ لینا جائز تھا؟اگر اضافی رقم لینا جائز نہ تھا تو عبد اللہ ان پیسوں کا کیا کرے؟جو اس نے ہمیں بغیر بتاۓ وصول کیے ہیں؟جب کہ اس نے جو ایڈوانس اور الماریاں بنوائی تھیں وہ ہم نے واپس کردی ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص کوئی گھر یا دکان کرایہ پر لے اور پھر اس گھر یا مکان میں اپنے  رقم سے کسی قسم کا کام کراۓ اور پھر اس گھر یا دکان کو آگے ایک اور شخص کو کراۓ پر دے ، اور اس سے اضافی کرایہ وصول کرے، تو اضافی کرایہ وصول کرنا جائز ہے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں  مذکورہ دکان عبد اللہ نے 50000 کرایہ پر لی، پھر اس کے بعد اپنی ذاتی رقم سے اس دکان میں الماریاں بنوا کر، اپنے رشتہ داروں کو اضافی کرایہ پر دی، لہذا اسکا اضافی کرایہ وصول   کرنا جائز تھا،لہذا وہ اس آمدن کو جہاں چاہے خرچ کرسکتا ہے۔

کتاب الاصل میں ہے:

"شعبة بن الحجاج عن حماد عن إبراهيم في رجل ‌استأجر ‌دارا ‌فآجرها ‌بأكثر ‌من ‌أجرها، أنه قال: ذلك ربا.وقال أبو حنيفة: إذا استأجر الرجل عبدا يخدمه فأراد أن يؤاجره من غيره ليخدمه كان ذلك له، ولا يكون مخالفا، وإن كان استفضل في أجره شيئا لم يطب له الفضل إلا أن يعينه ببعض متاعه، أو يعينه المستأجر الأول في عمله بشيء قليل، أو بشيء بنفسه أو ببعض أجرائه، فإن فعل ذلك طاب له الفضل."

(كتاب الحيل،‌‌باب الوجه في الخدمة وفضول أجورهم والثقة في ذلك،415/9،ط:دار ابن حزم، بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين: إذا ‌آجرها ‌بخلاف ‌الجنس أو أصلح فيها شيئا ..... قال ابن عابدين:(قوله بخلاف الجنس) أي جنس ما استأجر به وكذا إذا آجر مع ما استأجر شيئا من ماله يجوز أن تعقد عليه الإجارة فإنه تطيب له الزيادة كما في الخلاصة. (قوله أو أصلح فيها شيئا) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد"

(كتاب الإجارة،‌‌باب ما يجوز من الإجارة وما يكون خلافا فيها،29/6،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144410101525

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں