بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیرم بورڈ بنا کسی شرط کے کھیلنے کا حکم


سوال

کیرم کھیلنا بنا شرط کے کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے ایسے کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی ہے جن کھیلوں سے جسمانی فائدہ ہوتا ہو، جیسے: تیراکی، تیراندازی، گھڑسواری۔  اور ان کھیلوں کی حوصلہ شکنی  کی ہے جن میں لگنے سے وقت کا ضیاع ہوتا ہو۔  اور ایسے کھیلوں کو ناجائز قرار دیا ہے جن کی وجہ سے  گناہوں کا ارتکاب لازم آتا ہو یا وہ کھیل فساق و فجار کے کھیل ہوں، جیسے: تاش، شطرنج ،کیرم بورڈوغیرہ ۔

بصورتِ مسئولہ کیرم بورڈ کھیلنا بغیر کسی شرط کے مکروہِ تحریمی ہے، تاہم اگر کسی شرط کے ساتھ کھیلے یا عبادات  سے غفلت کا باعث بنے تو کھیلنا حرام ہے۔

ہدایہ میں ہے:

ويكره اللعب بالشطرنج والنرد والأربعة عشر وكل لهو"؛ لأنه إن قامر بها فالميسر حرام بالنص، وهو اسم لكل قمار، وإن لم يقامر فهو عبث ولهو. وقال عليه الصلاة والسلام: "لهو المؤمن باطل إلا الثلاث: تأديبه لفرسه، ومناضلته عن قوسه، وملاعبته مع أهله"، وقال بعض الناس: يباح اللعب بالشطرنج؛ لما فيه من تشحيذ الخواطر وتذكية الأفهام، وهو محكي عن الشافعي رحمه الله. لنا قوله عليه الصلاة والسلام: "من لعب بالشطرنج والنردشير فكأنما غمس يده في دم الخنزير"؛ ولأنه نوع لعب يصد عن ذكر الله وعن الجمع والجماعات فيكون حراماً؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: "ما ألهاك عن ذكر الله فهو ميسر"۔ ثم إن قامر به تسقط عدالته، وإن لم يقامر لا تسقط؛ لأنه متأول فيه.

(الهداية في شرح بداية المبتدي، ج:4، ص:378، ط: اسلامی کتب خانہ کراچی)

شرح مختصر الطحاوی میں ہے:
 قال: (ويكره اللعب بالشطرنج، والنرد، وكل اللهو)، وذلك لقول الله تعالى: ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِىْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ ﴾. فذم عليه، وأوعد عليه بالعقاب، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لست من دد، ولا الدد مني". وقد روي في النهي عن اللعب بالشطرنج عن النبي عليه الصلاة والسلام أحاديث. وروي "أن علياً رضي الله عنه مر بقوم يلعبون بالشطرنج، فقال: ﴿هٰذِهِ التَّمَاثِيْلُ الَّتِيْ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ﴾ ؟!". وهذا يدل على كراهة شديدة لذلك.

(شرح مختصر الطحاوي للجصاص (8/ 544)

فتاوی شامی میں ہے:

وكرہ تحریمًا اللعب بالنرد وكذا  الشطرنج  ... وھذا اذا لم یقامر  ولم یداوم ولم یخل بواجب و الا فحرام بالاجماع.

(رد المحتار علی الدر المختار،ج:6،ص:394،ط:ایچ ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110200134

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں