بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ دار سے زیادہ ایڈوانس کی رقم لینے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ شرعِ متین بابت درجِ ذیل مسئلہ: ایک مکان ہے جو کہ میں کرایہ پر دینا چاہتا ہوں، اور کرایہ پر دینے کےلئے ایڈوانس رقم لی جاتی ہے، عرض یہ ہے کہ شریعت میں کتنی رقم لینے کی اجازت ہے؟ اور بالفرض مجھے ایڈوانس کی رقم زیادہ چاہیے،تو کیا زیادہ رقم لے سکتا ہوں یا نہیں؟

جواب

مکان کرائے پر دیتے وقت عام طور پر مالک کو یہ خطرہ رہتا ہے کہ کرایہ دار بجلی یا پانی کا بل یا ماہانہ کرایہ ادا کیے بغیر فرار نہ ہوجائے، اس خطرے کے پیش نظر  کرایہ دار سے سکیورٹی کے طور پر امانتاً کچھ رقم لینا درست ہے، یہ رقم ابتداءً تو امانت ہوتی ہے، لیکن انتہاءً عرف ورواج کی وجہ سےیہ رقم قرض بن جاتی ہے؛ لہذا مالک مکان کو کرایہ دار سے بطورِ ایڈوانس باہمی رضامندی سے طے شدہ رقم  لینے کا حق  ہے البتہ یہ رقم چوں کہ قرض ہے تو کرایہ دار کی رضامندی سے اس سے زیادہ رقم بھی ایڈوانس کے طور پر  لینے کی گنجائش  ہے، البتہ بہت زیادہ ایڈوانس کی رقم لے کر  کرایہ میں غیرمعمولی کمی کرنا جائز نہیں ہے۔

درر الحكام شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"الضرورات تبيح المحظورات  الضرورة هي العذر الذي يجوز بسببه إجراء الشيء الممنوع" .

(المقالة الثانية، في بيان القواعد الكلية الفقهية، رقم المادۃ:21، ج:1، ص: 33،  ط:دار الكتب العلمية)

درر الحكام شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"وللمستودع أن يستعمل الوديعة بإذن صاحبها وله أيضا أن يؤجرها ويعيرها ويرهنها ويبيعها ويهبها ويسلمها وأن يأخذها لأجل دين نفسه وأن يتقاضى بها ويجري حسابها"

(الكتاب السادس: الأمانات،الباب الثاني في الوديعة، رقم المادة:792، ج:2، ص:267، ط.دار الكتب العلمية)

النتف في الفتاوى للسغدي میں ہے:

"وَالْآخر ان يجر الى نَفسه مَنْفَعَة بذلك الْقَرْض اَوْ تجر اليه وَهُوَ ان يَبِيعهُ الْمُسْتَقْرض شَيْئا بارخص مِمَّا يُبَاع اَوْ يؤجره اَوْ يَهبهُ اَوْ يضيفه اَوْ يتَصَدَّق عَلَيْهِ بِصَدقَة اَوْ يعْمل لَهُ عملا يُعينهُ على اموره اَوْ يعيره عَارِية أَو يَشْتَرِي مِنْهُ شَيْئا بأغلى مِمَّا يَشْتَرِي اَوْ يسْتَأْجر اجارة باكثر مِمَّا يسْتَأْجر وَنَحْوهَا وَلَو لم يكن سَبَب ذَلِك هَذَا الْقَرْض لما كَانَ ذَلِك الْفِعْل فان ذَلِك رَبًّا وعَلى ذَلِك قَول ابراهيم النَّخعِيّ كل دين جر مَنْفَعَة لَا خير فِيهِ"

(کتاب البیوع، ابواب الربا، ج:1، ص:485، ط:دارالفرقان)

  فتاوی شامی میں ہے:

"و في الأشباه: كل قرض جر نفعاًحرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن".  

(كتاب البيوع، فصل فى القرض، مطلب کل قرض جر نفعا، ج:5، ص:166،  ط:ايج ايم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100254

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں