بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کلو کے حساب سے خرید کر سیرکے حساب سے بیچنے کاحکم


سوال

میں پاکستان کا باشندہ ہوں،سارے پاکستان میں ناپ تول کے لیےکلو گرام استعمال ہوتا ہے لیکن ہمارے علاقوں میں دکاندار خرید تو کلو گرام سے کرتے ہیں لیکن گاہگ کو سیرسے دیتے ہیں، اور ریٹ سیر کے حساب سے مقرر کرتے ہیں، اس حساب سے 50 کلو کی بوری میں دکاندار کو 2 کلو اضافی ملتی ہے، اور پھر وہ 2 کلو سیر کے حساب سے فروخت کرتا ہے، کیا یہ ناپ تول جائز ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  خرید و فروخت کا یہ طریقہ  جائز ہے بشرطیکہ بیچنے والا خریدار کو سیر کے حساب سےفروخت کرنے کی بات بتادے،اورخریدار اس پرراضی ہوجاۓ،تو  یہ دھوکہ نہ ہونے کی وجہ سے جائزہے۔

قرآن مجید میں ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا."(آية:29، سورة النساء)

ترجمہ:"اےایمان والوں آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طور پر مت کھاؤلیکن کوئی تجارت ہو جوباہمی رضامندی سےہو تومضائقہ نہیں ،اورتم ایک دوسرے کوقتل بھی مت کرو بلاشبہ اللہ تم پر بڑےمہربان ہیں۔"(ازبیان القرآن)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌إذا، وجدت الإجازة من المالك في الإنتهاء وبين وجود الرضا في التجارة عند العقد أو بعده فيجب العمل بإطلاقها."

(كتاب البيوع، فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه، ج:5، ص:149، ط: دار الكتب العلمية)

ہدایہ میں ہے:

" یجوز بیع الطعام والحبوب مکایلة ومجازفة قال ویجوز باناء بعینه لایعرف مقدارہ وبوزن حجر بعینه لایعرف مقدارہ لان الجھالة لاتفضی الی المنازعة."

(كتاب البيوع، ‌‌كيفية انعقاد البيع،ج:3، ص:24، ط: دار احياء التراث العربي - بيروت - لبنان)

رمزالحقائق شرح کنزالدقائق میں ہے:

"یباع الطعام کیلا ای من حیث الکیل ویباع ایضاًوجزاماً لان بکل منھما یصیر معلوماً أماالمکایلة فطاھر واماالجزاف فلانه بالاشارۃ تفع الجھالة."

(عینی شرح کنز، ج:2، ص:3، تحت فی بیان احکام البیوع، ط:دارالكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100574

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں