بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 ربیع الاول 1446ھ 19 ستمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا اسلام میں داخل ہونے کے لیے اقرار باللسان ضروری ہے؟


سوال

 دائرۂ   اسلام میں داخل ہونے کے   لیے کلمہ طیبہ زبان سے ادا کرنا ضروری ہے ؟ اگر ایک   گونگا بہرا بچہ مسلمان کے گھر پیدا ہوا ہے، اور وہ ہر چیز کی سمجھ رکھتا ہے، تو ابھی وہ زبان سے کلمہ طیبہ   ادانہیں  کر سکتا تو وہ کیسے دائرۂ  اسلام میں آسکتا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ دائرۂ  اسلام میں داخل ہونے   کے لیے زبان سے اقرار (اقرار باللسان) اور دل سے تصدیق (تصدیق بالقلب) دونوں ہی ضروری ہیں، درحقیقت ایمان نام ہے عقیدے کا، لیکن دوسرے انسانوں کے سامنے اس کا اظہار اور زبانی اعتراف  کلمہ پڑھنے سے ہی ہوسکتاہے، لہٰذا کوئی بھی غیر مسلم جب اسلام قبول کرے تو اس پر  ضروری ہے کہ سابقہ مذہب سے توبہ کرے، کلمۂ شہادت  زبان سے پڑھ کر دینِ اسلام میں داخل ہو؛تاکہ اس  دنیا میں اس پر دین اسلام کے احکام جاری ہوں، کلمہ پڑھے بغیر اس کے مسلمان ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔

 اور جو شخص زبان سے کلمہ کا اقرار نہیں کرسکتاہے،اس کے مسلمان ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ دل سے اقرارکرکے  اشارہ سے ثابت کرے  کہ اللہ ایک ہے، اس کے علاوہ کوئی  اور معبود  ِبرحق نہیں ہےاور حضرت محمد ﷺ اللہ تعالی کے   آخری نبی اوررسول ہیں اور دین اسلام برحق  دین  ہے، اس لیے  کہ اللہ تعالی نے ہر ایک کو اپنی  طاقت کے بقدر مکلف  بنایاہے،چوں کہ گونگا بہرا آدمی زبان سے اقر ار نہیں کرسکتا تو اس کے حق میں اشارے  کا اعتبار کیا جائے گا، اور گونگے کا اشارہ ہی  اقرار باللسان کے قائم مقام ہے، جیساکہ دیگر عقود میں حکم ہے۔ ایک حدیث  شریف میں ہے:

"کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس کے ساتھ ایک غیر عربی یا گونگی لونڈی تھی، اس نے کہا  یا رسول اللہ، مجھ پر ایک غلام آزاد کرنا واجب ہے، کیا یہ لونڈی میرے لیے کافی ہوگی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لونڈی سے پوچھا ’’اللہ کہاں ہے؟‘‘ اس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا ’’میں کون ہوں؟‘‘  اس نے آپ کی طرف اشارہ کیا کہ آپ رسول اللہ ہیں،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے کہا  ’’اسے آزاد کر دو ، یہ مؤمنہ ہے۔‘‘

 نیزاگرگونگا بہر ا بچہ مسلمان کے گھر پیدا ہواہے تو وہ اپنے ماں باپ  کے  دین کے تابع ہوکر مسلمان  ہی شمار ہوگا، اس سے اقرار کرانے  کی ضرورت نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وهو تصديق محمد صلى الله عليه وسلم في جميع ما جاء به عن الله تعالى مما علم مجيئه ضرورة وهل هو فقط أو هو مع الإقرار؟ قولان وأكثر الحنفية على الثاني والمحققون على الأول والإقرار شرط لإجراء الأحكام الدنيوية."

(کتاب الجہاد ،باب المرتد، 222/4،ط،دار الفکر)

شرح العقیدۃ الطحاوی میں ہے:

"وهو التصديق بالقلب، هو الواجب على العبد حقا لله، وهو أن يصدق الرسول صلى الله عليه وسلم فيما جاء به من عند الله، فمن صدق الرسول فيما جاء به من عند الله فهو مؤمن فيما بينه وبين الله تعالى، ‌والإقرار ‌شرط إجراء أحكام الإسلام في الدنيا، هذا على أحد القولين، كما تقدم."

(‌‌تعريف الإيمان واختلاف الناس فيه،337،ط،بیروت)

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"يصير الكافر مسلما بالإذعان بالقلب والنطق بالشهادتين إن كان قادرا على النطق، فإن كان عاجزا عن النطق لخرس، فإنه يكتفى في إسلامه بالإشارة مع قيام القرائن على أنه أذعن بقلبه."

(‌‌الأحكام المتعلقة بالأخرس ،‌‌إسلام الأخرس،91/19،ط،الکوتیۃ)

"شرح الکبیر میں ہے:

"رجلا جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه جارية أعجمية أو خرساء، فقال: يا رسول الله، علي عتق رقبة، فهل يجزئ عني هذه؟ فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم: "أين الله؟ فأشارت إلى السماء، ثم قال لها: من أنا، فأشارت إليه أنه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال له: أعتقها؛ فإنها مؤمنة...أخرجه مالك في الموطإ من حديث معاوية بن الحكم، وأكثر الرواة عن مالك يقولون عمر بن الحكم، وهو من أوهام مالك في اسمه، قال: أتيت رسول الله فقلت: إن جارية لي كانت ترعى لي غنما، فجئتها وقد أكل الذئب منها شاة، فلطمت وجهها، وعلي رقبة، أفأعتقها؟ فقال لها رسول الله: أين الله؟ قالت في السماء قال: من أنا؟ قالت: أنت رسول الله، قال: فأعتقها."

(کتاب الکفارات ،الأُولی العتق ،497/9،ط،دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101098

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں