بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا اسلامی بینکوں سے گاڑی اجارہ کی بنیاد پرلینا جائز ہے؟


سوال

کیاشرکت یا اجارہ کی بنیاد پر اسلامک کار فنانسنگ کے ذریعے بینک سے گاڑی خریدنا جائز ہے؟ جیسے میزان بینک یا دبئی اسلامک بینک یا بینک الفلاح سے۔

جواب

واضح رہےکہ مروجہ اسلامی بینکوں سے  گاڑی خریدنے کا جو طریقہ رائج ہے  اس میں  بینک اور   خریدار  کے  درمیان معاہدہ کے تحت دو عقد ہوتے ہیں، ایک بیع (خریدوفروخت) اور دوسرا اجارہ (کرایہ داری) کا عقدہوتا ہے، اور یہ طے پاتاہے کہ اقساط میں سے اگر کوئی  قسط وقتِِ   مقررہ پر جمع نہیں کرائی گئی تو  بینک کی  جانب سے مقرر ہ   جرمانہ   (اجباری  تصدق کے نام سے)   لیز کرانے  والا شخص ادا کرنے کا پابند ہو گا؛ اس لیے لیزنگ کے رائج طریقِ کار میں دو شرعی قباحتیں ہیں:

1۔ مالی جرمانہ لگانا، یہ شرعاً ناجائز ہے، اگرچہ اجباری تصدق کی صورت میں ہو۔

 2۔  دوسری قباحت یہ ہے کہ لیزنگ میں دو عقد بیک وقت ہوتے ہیں، ایک عقد بیع کا ہوتا ہے جس کی بنا پر قسطوں کی شکل میں ادائیگی خریدار پر واجب ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ ہی اجارہ (کرائے) کا معاہدہ بھی ہوتا ہے، جس کی بنا پر ہر ماہ کرائے کی مد میں بینک خریدار سے کرایہ بھی وصول کرتا ہے، اور یہ دونوں عقد ایک ساتھ ہی کیے جاتے ہیں جو کہ   ناجائز ہیں۔

مذکورہ  بالا شرعی قباحتوں کی وجہ سے مروجہ اسلامی بینکوں سے لیزنگ کے ذریعہ گاڑی خریدنا جائز نہیں ہے۔

مرقاۃ المفاتیح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(وعن أبي هريرة قال: (نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة) أي: صفقة واحدة وعقد واحد."

(کتاب البيوع،  باب المنهي عنها من البيوع ج:5، ص: 1938،ط:  دار الفكر، بيروت)

مسندامام احمد بن حنبل میں ہے:

"عن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " ‌لعن ‌الله ‌آكل ‌الربا، وموكله، وشاهديه، وكاتبه."

(‌‌مسند عبد الله بن مسعود رضي الله تعالى عنه، ج:6، ص:358، ط: مؤسسة الرسالة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قوله: (لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح:  وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز اه، ومثله في المعراج وظاهره: أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية : ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اه، ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان قوله (وفيه الخ) أي: في البحر حيث قال: وأفاد في البزازية: أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عند مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود،  باب التعزير، مطلب في التعزير بأخذ المال، ج:4، ص:16،ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100965

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں