بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا بلی کا جوٹھا حرام ہے؟


سوال

کیا بلی کا جھوٹا حرام ہے؟ جب کہ بلی نے گوشت کی تھیلہ میں منہ مارا تھا اور اس وقت وہاں کوئی موجود نہیں تھا،  لیکن جب لوگ آنےلگےتو تھیلہ کوپھٹاہواپایا اور گوشت کو زمین پر گرا ہو پایا۔

جواب

واضح رہےکہ بلی  اگر  کھانے کی چیز میں منہ ڈال کر کچھ کھاپی لے تو  کھانے یا پینے کی  بقیہ چیز  اور وہ برتن ناپاک نہیں ہوتا، اور اس کے بچے ہوئے کھانے یا پانی  کا استعمال حرام نہیں ہے، البتہ مکروہ تنزیہی ہے، لہٰذاصورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃًبلی نےکسی کی عدم موجودگی میں گوشت کےتھیلےمیں منہ ماراتھا،بعدمیں لوگوں کےآنےسےیقینی طورپریہ پتہ چلاکہ بلی نےگوشت کی تھیلےمیں منہ مارکرگوشت گرایاتھااورشایدکچھ کھایابھی ہوگا،توایسی صورت میں  اگر اللہ تعالیٰ نے وسعت دی ہے تو مابقیہ گوشت نہ کھائے اور اگر غریب آدمی ہو تو کھالے، غریب کے لیے اس میں کوئی حرج اور گناہ نہیں ہے، بلکہ ایسے شخص کے واسطے مکروہ بھی نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) سؤر (خنزير وكلب وسباع بهائم) ومنه الهرة البرية (وشارب خمر فور شربها) ولو شاربه طويلاً لايستوعبه اللسان فنجس ولو بعد زمان (وهرة فور أكل فأرة نجس) مغلظ.

(و) سؤر هرة (ودجاجة مخلاة) وإبل وبقر جلالة، الأحسن ترك دجاجة ليعم الإبل والبقر والغنم، قهستاني. (وسباع طير) لم يعلم ربها طهارة منقارها (وسواكن بيوت) طاهر للضرورة (مكروه) تنزيها في الأصح إن وجد غيره وإلا لم يكره أصلا كأكله لفقير."

(‌‌كتاب الطهارة، ‌‌باب المياه، ج:1، ص:223، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(قوله: وسواكن بيوت) أي مما له دم سائل كالفأرة والحية والوزغة، بخلاف ما لا دم له كالخنفس والصرصر والعقرب فإنه لايكره كما مر، وتمامه في الإمداد (قوله: طاهر للضرورة) بيان ذلك أن القياس في الهرة نجاسة سؤرها؛ لأنه مختلط بلعابها المتولد من لحمها النجس، لكن سقط حكم النجاسة اتفاقاً بعلة الطواف المنصوصة بقوله صلى الله عليه وسلم: إنها ليست بنجسة، إنها من الطوافين عليكم والطوافات". أخرجه أصحاب السنن الأربعة وغيرهم، وقال الترمذي: حسن صحيح؛ يعني أنها تدخل المضايق ولازمه شدة المخالطة بحيث يتعذر صون الأواني منها، وفي معناها سواكن البيوت للعلة المذكورة، فسقط حكم النجاسة للضرورة وبقيت الكراهة لعدم تحاميها النجاسة، وأما المخلاة فلعابها طاهر فسؤرها كذلك، لكن لما كانت تأكل العذرة كره سؤرها ولم يحكم بنجاسته للشك، حتى لو علمت النجاسة في فمها تنجس، ولو علمت الطهارة انتفت الكراهة."

(‌‌كتاب الطهارة، ‌‌باب المياه، ج:1، ص:223، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102056

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں