بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ایک ماہ بیس دن کے حمل کو ضائع کرنا جائز ہے ؟


سوال

میری بیوی کو تقریباً ایک ماہ بیس دن کا حمل ہے،  پہلے آپریشن کی وجہ  سے ابھی اس کی حالت بہت اچھی نہیں،  ہمیں ڈر ہے کہیں نئے بچے کی پرورش میں بیوی کی جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں،  ہم چاہتے ہیں حمل ضائع کر دیں، اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کریں۔

جواب

واضح رہے کہ  اگر  ماں کی جان کو  حمل سے  خطرہ  ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہو ، یا  حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے جس  سے پہلے بچہ کو نقصان ہو ، وغیرہ جیسے اعذار کی بنا پر  حمل  میں روح پڑجانے سے پہلے   پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    حمل  کو ساقط کرنے کی گنجائش ہے۔ صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ اعذار میں سے کسی عذر کے پیشِ نظر اگر  کوئی  دین دار اورماہر طبیب یہ کہہ دے کہ بچہ کی پیدائش کی وجہ سے ماں کی جان کو یقینی یا غالب گمان کے مطابق خطرہ ہے یا ماں کی صحت حمل کاتحمل نہیں کرسکتی  یا  پھر پہلے بچے کی تربیت میں دقت ہونے اور صحیح تربیت نہ ہونے کا اندیشہ ہوتو اسقاط حمل کی گنجائش ہے، لیکن اگر معاشی خوف کی وجہ سے ہو تو اسقاط ناجائز ہےاگر چہ حمل چار ماہ سے کم مدت کا ہو، اور شدید ضرورت نہ ہو تو چار ماہ سے کم مدت کا حمل بھی ساقط کرنا درست نہیں ہے۔

الدر مع الرد میں ہے : 

"وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج.

(قوله: وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم! يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوماً، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط؛ لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة، كذا في الفتح. وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه؛ لأنه أصل الصيد، فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـ قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لاتأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح."

(کتاب النکاح ،باب نکاح الرقیق، مطلب :في حكم العزل،ج: 3،ص: 176، ط: سعید)

في الفتاوى الهندية :

"العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه کالشعر والظفر ونحوهما لایجوز، وإن کان غیر مستبین الخلق یجوز … امرأة مرضعة ظهربها حبل وانقطع لبنها، وتخاف علی ولدها الهلاک، ولیس لأبي هذا الولد سعة حتی یستأجر الظئر یباح لها أن تعالج في استنزال الدم مادام نطفة أو مضغة أو علقة لم یخلق له عضو وخلقه لایستبین إلا بعد مائة وعشرین یوماً أربعون نطفةً وأربعون علقةً وأربعون مضغةً، کذا في خزانة المفتیین، وهکذا في فتاوی قاضي خان."

( کتاب الکراهیة، الباب الثامن عشر: في التداوي والمعالجات وفیه العزل وإسقاط الولد،ج: 5،ص: 356،ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

في الموسوعة الفقهیة الکویتیة:

"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل."

(‌‌الأحكام المتعلقة بالعلقة،ج: 30،ص: 285،ط: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144311100455

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں