بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کئی کفریہ کلمات سے توبہ


سوال

1)اگر کسی مسلمان سے کئی کفریات صادر ہوئے ہوں اور اس کو ان میں سے کچھ کفریات یاد ہوں اور کچھ یاد نہ ہوں اور جو کفریات اس کو یاد ہوں اور جو یاد نہ ہوں ان سے دل سے نفرت بھی کرتا ہو اور شرمندہ بھی ہو تو جو کلمہ کفر یاد ہوں ان کو ایک ایک کو زبان سے ادا کر کے توبہ کرنا ضروری ہے یا یہ کہہ دے کہ اے اللہ مجھ سے جتنے کفریات صادر ہوئے ہیں ان تمام سے توبہ کرتا ہوں اور کلمہ پڑھ لے؟یا ایک ایک کفر کو زبان سے ادا کر کے توبہ کرنا ضروری ہے؟

2)نیز اگر کلمہ کفر تین چار لوگوں کے سامنے بکا ہو تو کیا اس کےلئے ان لوگوں کے سامنے توبہ کرنا ضروری ہے؟اگر تنہائی میں توبہ کریں تو کیا توبہ قبول نہیں ہو گی؟ یا اللہ سے توبہ کر کے ان لوگوں کو بتا دیں کہ یہ کفریات جو میں نے کہے تھے میں ان سے توبہ کر چکی ہوں؟

3)میرے سے تین چار کفریہ کلمات صادر ہوئے ہیں تو کیا میں  ان کو ایک ایک  زبان سے ادا کر کے توبہ کر کے کلمہ پڑھوں پھر دوسرا کلمہ کفر ادا کر کے توبہ کر کے کلمہ پڑھوں یا ایسے توبہ کر لوں کہ اے اللہ مجھ سے جتنے بھی کفریات آج تک صادر ہوئے ہیں ان سب سے توبہ کرتی ہوں؟

4)اگرکسی نے ایک کلمہ کفر سے توبہ کر کے تجدید ایمان کر لیا اور اس کو بعد میں یاد آیا کہ اس نے اس کلمہ کفر سی پہلے بھی ایک کلمہ کفر بولا تھا تو کیا اب پہلے والے کلمہ کفر سے بھی توبہ اور تجدید ایمان کرنا ضروری ہے؟کیونکہ مفتی صاحب جہالت کی وجہ سے ہم کئی ایسے کلمات بول جاتے ہیں جو ہمیں کفر نہیں لگتے لیکن بعد میں پتا چلتا ہے کہ کفریہ ہیں تو اب ہماری نمازوں وغیرہ کا کیا ہو گا جو ہم نے ایک کفر یا احتیاطا توبہ اور تجدید ایمان کرنے کے بعد پڑھیں؟  نیز اگر دوسرے کفر سے توبہ اور تجدید ایمان کرنے کے بعد کوئی اور کفر یاد آ جائے جو ماضی میں بولا ہو؟

5)میں نے رو رو کر گڑگڑا کر توبہ کی،اور میں توبہ میں یہ لفظ استعمال کیا کہ اے اللہ، میں اپنے تمام کفرو شرک سے توبہ کرتی ہوں ،جس کا مُجھے علم ہے، جس کا مجھے علم نہیں ، اے اللہ تو جانتا ہے سب کُچھ تو معاف کر دے ،میں تُجھ سے وعدہ کرتی ہو کبھی کُفرِیہ یا شرکیہ الفاظ نہیں بولوں گی۔اب  پوچھنا یہ ہے کہ اگر میرے زندگی میں کوئی اور بھی چھُپا ہوا کُفر یا شرك رہا ہوگا تو اِس طرح سے توبہ کرنے سےمعاف ہو گیا ہوگا؟ کیوں کہ ماضی میں میرے سے کئی کفریات صادر ہوئے ہیں جن میں سے کچھ مجھے یاد ہیں اور کچھ مجھے یاد نہیں تو کیا ایسے توبہ کرنا صحیح ہے یا جو کفریات مجھے یاد ہیں ان کو الگ سے ادا کر کے کلمہ پڑھوں، پھر دوسرا کلمہ کفر ادا کر کے کلمہ پڑھوں، اسی طرح پانچوں یا جتنے کفریات مجھ سے صادر ہوئے ہیں ان سے توبہ کروں؟

جواب

صورت مسئولہ میں آپ نے جو  کفریہ کلمات کہے ہیں اور  توبہ کرنا چاہتے ہیں اور  کچھ کلمات یاد ہیں اور کچھ یاد نہیں ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ  تمام کفریات سے سچے دل سے توبہ کریں  اور جو کفریہ کلمات یا دہوں، ان کے کفری عقائد سے براءت بھی کریں مثلاً اگر اللہ کے لیے بیٹا مانا تو اب اللہ کے لیے بیٹا ہونے کے اعتقاد سے براءت کریں۔ اور جو کفریہ الفاظ یاد نہ ہوں، اجمالاً ایسے کلمات سے بھی توبہ کرلیں تو یہ کافی ہے۔

ہر ہر کفریہ کلمہ کو زبان سے دہرا کر توبہ کرنا لازم نہیں ہے۔ نیز جن افراد کے سامنے کفریہ کلمات کہے، ان کے سامنے توبہ کرنا لازم نہیں ہے، البتہ ان تک رسائی ہو تو ان کو اطلاع دینا بہتر ہے کہ آپ نے اپنے عقائد اور رویہ درست کر لیا ہے تاکہ وہ آپ کے ساتھ کافروں والا معاملہ نہ کریں۔ 

اس طرح توبہ کرنے کے بعد پڑھی گئی تمام نمازیں درست ہیں، ماضی کے کسی کفریہ کلمہ کو یاد کرنے سے نمازوں پر فرق نہیں پڑے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم اعلم أنه يؤخذ من مسألة العيسوي أن من كان كفره بإنكار أمر ضروري كحرمة الخمر مثلًا أنه لا بد من تبرئه مما كان يعتقده لأنه كان يقر بالشهادتين معه فلا بد من تبرئه منه كما صرح به الشافعية وهو ظاهر."

(کتاب الجہاد ، باب المرتد، ج:4، ص:228، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وفي الفتح: من هزل بلفظ كفر ارتد وإن لم يعتقده للاستخفاف فهو ككفر العناد.
(قوله: من هزل بلفظ كفر) أي تكلم به باختياره غير قاصد معناه، وهذا لاينافي ما مر من أن الإيمان هو التصديق فقط أو مع الإقرار لأن التصديق، وإن كان موجوداً حقيقةً لكنه زائل حكماً؛ لأن الشارع جعل بعض المعاصي أمارة على عدم وجوده كالهزل المذكور، وكما لو سجد لصنم أو وضع مصحفاً في قاذورة فإنه يكفر، وإن كان مصدقاً لأن ذلك في حكم التكذيب، كما أفاده في شرح العقائد، وأشار إلى ذلك بقوله: للاستخفاف، فإن فعل ذلك استخفافاً واستهانةً بالدين فهو أمارة عدم التصديق، ولذا قال في المسايرة: وبالجملة فقد ضم إلى التصديق بالقلب، أو بالقلب واللسان في تحقيق الإيمان أمور الإخلال بها إخلال بالإيمان اتفاقا، كترك السجود لصنم، وقتل نبي والاستخفاف به، وبالمصحف والكعبة.
وكذا مخالفة أو إنكار ما أجمع عليه بعد العلم به لأن ذلك دليل على أن التصديق مفقود، ثم حقق أن عدم الإخلال بهذه الأمور أحد أجزاء مفهوم الإيمان فهو حينئذ التصديق والإقرار وعدم الإخلال بما ذكر بدليل أن بعض هذه الأمور، تكون مع تحقق التصديق والإقرار، ثم قال ولاعتبار التعظيم المنافي للاستخفاف كفر الحنفية بألفاظ كثيرة، وأفعال تصدر من المنتهكين لدلالتها على الاستخفاف بالدين كالصلاة بلا وضوء عمدا بل بالمواظبة على ترك سنة استخفافا بها بسبب أنه فعلها النبي صلى الله عليه وسلم زيادة أو استقباحها كمن استقبح من آخر جعل بعض العمامة تحت حلقه أو إحفاء شاربه اهـ. قلت: ويظهر من هذا أن ما كان دليل الاستخفاف يكفر به، وإن لم يقصد الاستخفاف لأنه لو توقف على قصده لما احتاج إلى زيادة عدم الإخلال بما مر لأن قصد الاستخفاف مناف للتصديق (قوله: فهو ككفر العناد) أي ككفر من صدق بقلبه وامتنع عن الإقرار بالشهادتين عنادا ومخالفة فإنه أمارة عدم التصديق."

(کتاب الجہاد، باب المرتد، ج:4، ص:222، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408100250

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں