بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ننگے پیر چلنا سنت ہے اورننگے پیر(چپل/جوتے پہن کر) نہ چلنے والا تارک سنت ہے؟


سوال

1-کیا المشی حافیا،یعنی ننگے پیر چلنا سنت ہے؟

2-اور ننگے پیر نہ چلنے والا تارکِ  سنت شمار ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں  ننگے  پیر چلنا سنت نہیں ہے، کبھی اگرایسی نوبت آجائے تو سنت سمجھے بغیر ننگے  پیر چلنے میں مضائقہ نہیں ہے۔

2- ننگے پیر نہ  چلنے والا شخص تارکِ  سنت  نہیں کہلائے  گا،  بلکہ چپل /جوتے  کی  سہولت ہونے باوجود ننگے پیر چلنا  رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے خلاف  اور دین میں غلو کرناہےجس سے اجتناب ضروری ہے۔

صحيح مسلم میں ہے:

(2096) حدثني سلمة بن شبيب ، حدثنا الحسن بن أعين ، حدثنا معقل ، عن أبي الزبير ، عن جابر قال: « سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول في غزوة غزوناها: ‌استكثروا ‌من ‌النعال، فإن الرجل لايزال راكبا ما انتعل."

(كتاب اللباس والزينة، باب: استحباب لبس النعال وما في معناها، ج:3، ص:1660، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)

وفیه أيضا:

- (2097) حدثنا يحيى بن يحيى قال: قرأت على مالك ، عن أبي الزناد ، عن الأعرج ، عن أبي هريرة : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: « لا يمش أحدكم ‌في ‌نعل واحدة، لينعلهما جميعا أو ليخلعهما جميعا."

(كتاب اللباس والزينة،باب: استحباب لبس النعل في اليمنى أولا، والخلع من اليسرى أولا، وكراهة المشي في نعل واحدة، ج:3، ص:1660، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)

 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج میں ہے:

"قوله صلى الله عليه وسلم حين كانوا في غزاة (استكثروا من النعال فإن الرجل لايزال راكبا ما انتعل) معناه أنه شبيه بالراكب في خفة المشقة عليه وقلة تعبه وسلامة رجله ممايعرض في الطريق من خشونة وشوك وأذى ونحوذلك وفيه استحباب الاستظهار فى السفر بالنعال وغيرهما مما يحتاج إليه المسافر واستحباب وصية الأمير أصحابه بذلك."

(كتاب اللباس والزينة، باب: استحباب لبس النعال وما في معناها،ج:14، ص:73، ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فتاوی رشیدیه میں ہے:

ننگے سر ننگے پیر رہنا

سوال: سر برہنہ اور پا بر ہنہ رہنا سنت ہے یا نہیں اور بعض صوفی ان افعال کو سنت جان کر کرتے ہیں سو یہ افعال فی الحقیقت سنت ہیں یا نہیں؟

جواب : احیانًا پا بر ہنہ ہونا مضائقہ نہیں،  ورنہ آپ علیہ السلام اکثر اوقات نعلین یا موزہ پہنتے تھے۔ اور سر برہنہ ہونا احرام میں ثابت ہے،  سوائے احرام کے بھی احیانًا ہو گئے ہیں،  نہ دائماً چلتے پھرتے۔

(فتاوی رشیدیه، ج:2،ص:511، ط:المکتبة الحنفیة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144511101034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں