2004ء میں والد صاحب کا ایک بانڈ نکلا تھا، چار لاکھ روپے یہ رقم کاروبار میں استعمال ہوگئی، اب میں اس کو اپنے کاروبار سے نکالنا چاہتاہوں ،تاکہ میرا کاروبار حلال ہوجائے، اس کا طریقہ کار کیا ہوگا،نیز یہ بھی بتائیں کہ اس رقم کو کس مد میں استعمال کرسکتاہوں؟
اسی طرح کچھ رقم بینک کی انٹرسٹ کی آئی ہے، وہ بھی کاروبار میں استعمال ہوئی ہے، اس کے بارے میں بھی شرعی راہ نمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ کوئی بھی بینک سودی کاروباری سے پاک نہیں ہے ،اور قرآن و حدیث میں سودی لین دین کی سخت ممانعت آئی ہے ،بلکہ سود خور کو اللہ اور کے رسول سے جنگ کرنے کے مترادف قرار دیا ہے ،اسی وجہ سےبینک میں کسی قسم کی ملازمت کرنا سودی لین دین میں معاونت کرنے کی وجہ سے نا جائز ہے،اور اس کام کی وجہ سے ملنے والی تنخواہ بھی ناجائز ہے،اسی طرح بانڈز کی حیثیت قرض کی ہوتی ہے، حکومت اس قرضہ کو استعمال میں لاتی ہے اور قرضہ کے عوض لوگوں سے ایک مقررہ مقدار میں انعام کا وعدہ کرتی ہے اور پھر قرعہ اندازی کے ذریعے انعامی رقم کے نام سے سود کی رقم لوگوں میں تقسیم کردی جاتی ہے، جو ناجائز اور حرام ہے۔
لہذا بینک سے انٹرسٹ کی صورت میں یا بانڈز کی صورت ملی ہوئی رقم سود ہے ، اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے، جتنی رقم حاصل کی گئی ہو ، اتنی رقم کے بقدر بغیرنیت ثواب کے صدقہ کردے ، اس کے بعد اس رقم سے کاروبار کی شکل جو رقم حاصل کی گئی ہو وہ حلال ہے ۔
معارف السننمیں ہے:
"قال شيخنا: ويستفاد من كتب فقهائنا " كالهداية" وغيرها أن : من ملك بملك خبيث ولم يمكنه الرد إلى المالك فسبيله التصدق على الفقراء."
(أبواب الطهارۃ، ج:1، ص:95، ط:مجلس الدعوۃ والتحقیق الإ سلامي)
حاشیة ابن عابدین علی الدرالمختار میں ہے:
"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."
(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد، مطلب:فیمن ورث مالاً حراماً، ج:7 ،ص:307، ط:رشیدیه)
الدرالمختار مع ردا لمحتار میں ہے:
(عليه ديون ومظالم جهل أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله) هذا مذهب أصحابنا
وفي الرد: (قوله: فعليه التصدق بقدرها من ماله) أي الخاص به أو المتحصل من المظالم. اهـ.
(کتاب اللقطة، مطلب فيمن عليه ديون ومظالم جهل أربابها، ج:6، ص:434، ط:رشیدیه)
شرح فتح القدیر علی الهدایةمیں ہے:
غير أن هذه المسألة بهذا التفصيل في طيب الربح صريح الرواية في الجامع، فإن فيه محمدا عن يعقوب عن أبي حنيفة في رجل اشترى من رجل جارية بيعا فاسدا بألف وتقابضا وربح كل واحد منهما فيما قبض قال: يتصدق الذي قبض الجارية بالربح ويطيب الربح للذي قبض الدراهم، وحينئذ فالأصح أن الدراهم لا تتعين في البيع الفاسد لا كما قال."
(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، فصل في أحكام البيع الفاسد، ج:6، ص:569، ط:دار الفكر، بيروت)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
محض تو بہ کر لینے سے مال پاک نہیں ہوا، بلکہ وہ کل مال یا اس کی مقدار صدقہ کرنا واجب ہے ۔ البتہ اگر اسی مال سے زمین خریدی گئی ہے، یا اس سے کوئی جائز تجارت کی جارہی ہے تو اس زمین و تجارت کی آمدنی حلال ہوگی اور ان کے یہاں خوردونوش، آمد و رفت بھی جائز ہوگی، لیکن اس پر ضروری ہوگا کہ جتنے نا جائز رو پے اس نے زمین یا تجارت میں لگائے ہیں ، اس مقدار کو صدقہ کر دے، اگر چہ اس کی آمدنی سے ہی ہو:في القنية لو كان الخبيث نصاباً، لا يلزمه الزكوة؛ لأن الكل واجب التصدق عليه". شامی: ٣٤/٢(٣)۔
فقط واللہ سبحانہ تعالی اعلم ۔
حرره العبد محمود عفا اللہ عنہ، دار العلوم دیو بند ، ۵۸۸/۷/۹
الجواب صحیح : بندہ نظام الدین عفی عنہ، دار العلوم دیو بند۔
(باب المال الحرام ومصرفہ، ج: 18، ص:415 ، ط:دارالافتاء جامعہ فاروقیہ)
وفیه أیضا:
مال حرام ورثاء کے لئے
سوال:- اگر کسی آدمی کے پاس مال حرام ہوتو مرنے کے بعد اس کی اولاد بالغ کو کھانا جائز ہے یانہیں ؟
الجواب حامداًومصلیاً
اگراس کا اصل مالک معلوم ہے تو اس کا واپس کرنا ضروری ہے،اگرمعلوم نہیں البتہ وہ مال بجنسہ جو حرام ہے معلوم ہے تو کسی فقیر کو صدقہ کرنا اصل مالک کو ثواب پہنچانے کی نیت سے ضروری ہے ، اوراگرمال مخلوط ہے یہ معلوم نہیں کہ کونسا حرام اور کونسا حلال ہے ، توورثہ کو استعمال کرنا درست ہے ،لیکن افضل یہ ہے کہ اس سے احتیاط کریں ،یعنی اگرمالک کاعلم ہو تو اس کو دیدیں ورنہ صدقہ کردیں، اگرتمام مال حرام ہے تواس کا استعمال درست نہیں ،مالک معلوم ہونے کی صورت میں واپسی ضروری ہے ،نہ معلوم ہونے کی صورت میں صدقہ کردیا جائے ۔
فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم
حررہ العبد محمودگنگوہی غفرلہٗ
(کتاب الفرائض، ج:20، ص:340، ط: فاروقیہ)
امداد الفتاوی میں ہے:
ورثہ کے حق میں مال حرام کا حکم
سوال(۲۷۳۸) : قدیم ۴/۳۵۰ - باپ نے بذریعہ حلا ل یا حرام کچھ مال حاصل کیا تھا، بیٹوں کو تحقیقی طور سے معلوم ہوا کہ ذریعہ حرام سے مال حاصل کیا، اس صورت میں بیٹوں کو وہ مال لینا حلال ہے یا حرام؟
الجواب: ہر چند بعض فقہاء نے مطلقاً مال حرام کو وارث کے لئے حلال کہا ہے، لیکن یہ روایت صحیح نہیں ، مفتٰی بہ اور معتمد یہ ہے کہ اُن کے لئے بھی حرام ہے، پس اگر اربابِ حقوق ورثہ کو معلوم ہیں تو اگر بعینہ اُن کی چیز محفوظ ہو تو اس کو ورنہ اس کی قیمت واپس کردیں ، اور اگر معلوم نہیں تو اگر مال حرام معیّن اور متمیز ہے تو اس کو مالک کی نیت سے تصدق کردیں ، اور اگر مخلوط غیر متمیز ہے تو اگر اس کی مقدار قیمت معلوم ہے اس کو تصدق کردیں ورنہ تخمینہ کرکے تصدق کردے ان شاء اللہ تعالیٰ آخرت میں مواخذہ نہ ہوگا۔
لانأخذ بھذہ الروایة وهو حرام مطلقاً علی الورثة فتنبه درمختار، في الشامي بعد البحث الطویل الحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب ردہ علیهم وإلا فإن علم عین الحرام لایحل له ویتصدق به بنیة صاحبه وإن کان مالا مختلطاً مجتمعاً من الحرام والحلال ولا یعلم أربابه ولا شیئًا منه بعینه حل حکمًا والأحسن دیانة التنزہ عنه۔انتہی فی الدرالمختار علیه دیون ومظالم جهل أربابہا فعلیه التصدق بقدرها وسقط عنه المطالبة في العقبی۔ وﷲ أعلم
۸ /صفر ۱۳۰۴ھ (امداد، ج۳،ص:۱۲۳)
(ج:9، ص:600، ط:جدید مطول حاشیہ ،مکتبہ زکریا دیوبند)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144602102766
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن