میں گورنمنٹ آفس میں بحیثیت امام نمازظہراورجمعہ کی نمازکےفرائض انجام دےرہاہوں،جمعہ کی نمازکی ترتیب کروناوائرس کی وجہ سے شروع ہوئی تھی،کروناوائرس سے پہلے اسٹاف اپنے آفس کے قریبی جامع مسجد میں جاکرنمازجمعہ کی ادائیگی کیاکرتےتھے۔
کروناوائرس جیسے حالات اب نہیں ہیں،لیکن ابھی تک آفس میں نمازجمعہ کی جماعت کی ادائیگی ہورہی ہے،آپ کویہ بات بھی ضروری بتاناچاہتاہوں کہ آفس کی مسجد میں باقاعدہ کوئی امام نہیں ہے،اورنہ ہی فرض نماز کی باجماعت ادائیگی پابندی سے ہوتی ہے،صرف نماز ظہرآفس میں پیرتاجمعرات باقاعدہ ہوتی ہے،زیادہ تراسٹاف انفرادی طورپرنمازاداکرتےہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیامندرجہ بالاوجوہات کی بنیادپرنمازجمعہ آفس میں اداکرنی چاہیے یانہیں؟
صورت مسئولہ میں جب آفس کے قریب میں جامع مسجدموجودہےتوجمعہ کی نمازآفس کےمصلےپراداکرنےکےبجائےمسجدمیں جاکراداکی جائے،جمعہ کی نمازمیں جتنابڑامجمع ہوگااتناہی شرعاًمطلوب ومحمودہے۔
نیزجوثواب مسجدمیں جاکرباجماعت نمازاداکرنےسےملےگاوہ آفس کےمصلے پرنمازاداکرنےسے نہیں ملےگا۔
لہذاکروناوائرس کی ہنگامی صورتحال میں ضرورت کی بنیادپرجوجمعہ آفس کےمصلے پرشروع ہواتھا،اب ضرورت ختم ہوجانے کےبعداسے موقوف کردیاجائے۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ( «صلاة الرجل في بيته بصلاة، وصلاته في مسجد القبائل بخمس وعشرين صلاة، وصلاته في المسجد الذي يجمع فيه بخمسمائة صلاة، وصلاته في المسجد الأقصى بخمسين ألف صلاة، وصلاته في مسجدي بخمسين ألف صلاة، وصلاته في المسجد الحرام بمائه ألف صلاة»(في مسجد القبائل) ، أي: مسجد الحي (بخمس وعشرين صلاة) ، أي: بالإضافة إلى صلاته في بيته لا مطلقا لما تقدم (وصلاته في المسجد الذي يجمع فيه) ، أي: يصلي فيه الجمعة (بخمسمائة صلاة) ، أي: بالنسبة إلى مسجد الحي ."
(كتاب الصلاة، باب المساجد ومواضع الصلاة، ج:2، ص:628، ط:دار الفكر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144601101896
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن