اگر امام صاحب سے نماز میں کوئی غلطی ہوجائے جوانہیں نماز مکمل کرنے کے بعد یاد آئے، یعنی اُس صورت میں کہ دونوں جانب سلام پھیر لیا گیا ہو، پھر امام سجدہ سہو کرے لیکن اس دوران دیر سے آنے والے نمازی اپنی نماز مکمل کرنے کے لیے قیام کر چکے ہوں، تو اِس صورت میں امام اور مقتدی کی نماز کس طرح مکمل اور درست ہوگی ؟
نماز کے فرائض اورواجبات میں تمام مقتدیوں کوامام کی موافقت کرنا واجب ہے،ہاں سنن وغیرہ میں موافقت کرنا واجب نہیں ،پس اگرامام پر کسی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہوجائے اورایک سلام کے بجائے دونوں طرف سلام پھیرے اورپھر یادکرنے پر سجدہ سہوکرلےتوجولوگ ابھی تک نمازکی ہیئت پرتھے اورانہوں نے نماز کے منافی کوئی عمل نہ کیاہو وہ امام کے ساتھ سجدہ سہو کریں تو ان سب کی نماز ہوجائے گی، البتہ جولوگ امام کے سلام پھرتے ہی کسی منافی صلاۃ عمل میں مصروف ہوگئے،مثلاً سینہ قبلے سے پھیرلیا، اٹھ کر چلے گئے، کچھ کھا پی لیا،موبائل استعمال کیا،تو اب یہ امام کے ساتھ سجدہ سہو میں شامل نہ ہوں، تاہم ان کی نماز کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا ہوگئی ہے، اسی نماز کے وقت کے اندر اندر اعادہ کریں، اس نماز کا وقت ختم ہوگیا تو اعادہ مستحب ہوگا۔ تاہم جولوگ امام کے سلام پھیرنےکےبعد بقیہ نماز پوری کرنےکے لیے کھڑے ہوگئے ہوں وہ اب سجدہ سہو میں امام کی اتباع نہ کریں،اوراپنی نماز کےاختتام پر سجدہ سہو کرلیں،ان کی نماز ہوجائے گی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ومتابعة الإمام يعني في المجتهد فيه لا في المقطوع بنسخه أو بعدم سنيته كقنوت فجروإنما تفسد بمخالفته في الفروض۔۔۔(قوله يعني في المجتهد فيه)۔۔۔فعلم من هذا أن المتابعة ليست فرضا، بل تكون واجبة في الفرائض والواجبات الفعلية۔۔۔ومثال ما تجب فيه المتابعة مما يسوغ فيه الاجتهاد ما ذكره القهستاني في شرح الكيدانية عن الجلابي بقوله كتكبيرات العيد وسجدتي السهو قبل السلام والقنوت بعد الركوع في الوتر.
والمراد بتكبيرات العيد ما زاد على الثلاث في كل ركعة مما لم يخرج عن أقوال الصحابة؛ كما لو اقتدى بمن يراها خمسا مثلا كشافعي، ومثل لما لا يسوغ الاجتهاد فيه في شرح الكيدانية عن الجلابي أيضا بقوله: كالقنوت في الفجر والتكبير الخامس في الجنازة ورفع اليدين في تكبير الركوع وتكبيرات الجنازة، قال فالمتابعة فيها غير جائزة ."
(كتاب الصلاة، باب واجبات الصلاة، ج:1، ص:470، ط:سعيد)
وفيه ايضاً:
"(ولها واجبات) لاتفسد بتركها وتعاد وجوبا في العمد والسهو إن لم يسجد له، وإن لم يعدها يكون فاسقا آثما وكذا كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها."
(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ج: 1، ص: 457،456، ط: سعید)
وفيه ايضاً:
"تعاد وجوب الإعادة في الوقت وبعده... وأما على القول بأنها تكون في الوقت وبعده كما قدمناه عن شرح التحرير وشرح البزدوي، فإنها تكون واجبة في الوقت وبعده أيضا على القول بوجوبها. وأما على القول باستحبابها الذي هو المرجوح تكون مستحبة فيهما، وعليه يحمل ما مر عن القنية عن الترجماني. وأما كونها واجبة في الوقت مندوبة بعده كما فهمه في البحر وتبعه الشارح فلا دليل عليه... قلت: ... يشمل وجوبها في الوقت وبعده: أي بناء على أن الإعادة لا تختص بالوقت."
(كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ج: 2، ص: 64، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511102417
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن