میری بیوی میراکہنانہیں مانتی،بچوں کوبھیک مانگنےپرلگادیاہے،اورمیرےبچوں کوراہ راست سے ہٹایاہے،اورمجھےاولادکی تربیت کرنےنہیں دیتی ہے،اب تقربیاًچار سال سے اس نےمجھے قتل کرنےکی کوشش کی ہے،یہاں تک کہ پانچ مرتبہ اپنے بیٹوں کی ذریعےقتل کرنےکی کوشش کی۔
نیزمیں نےاس کوطلاق دینےکاسوچالیکن میری والدین کےمنع کرنےکی وجہ سے میں نےطلاق نہیں دی کہ میرےوالدین کی دل آزاری نہ ہو۔
1:۔اب سوال یہ ہے کہ کیامیری بیوی نان ونفقہ کی حق دارہے؟
2:۔کیا میں دوسری شادی کرسکتاہوں ؟
3:۔اگرمیں طلاق دےدوں توکیایہ والدین کی نافرمانی شمارہوگی یانہیں؟
وضاحت:سائل کی بیوی چارسال سے سے کہیں اوررہ رہی ہے،یعنی سائل کےگھرمیں نہیں رہ رہی ہے۔
1:۔صورت مسئولہ میں اگرواقعۃًآپ کی بیوی چارسال سےآپ کاگھرچھوڑکرچلی گئی ہے،اورالگ رہ رہی ہے، اورآپ کےبلانےکےباوجودگھرواپس نہیں آرہی تواس صورت میں چوں کہ بیوی کی طرف سے نافرمانی پائی جارہی ہے، لہذا وہ نان ونفقہ کی مستحق نہیں ہوگی۔
2:۔شریعت مطہرہ نےمردکوبیک وقت ایک سے زائدشادی کرنےکی اجازت اس شرط کےساتھ دی ہے کہ وہ تمام بیویوں کےدرمیان نان نفقہ،رہائش،لباس پوشاک میں عدل ومساوات قائم رکھنےپرقدرت رکھتاہو ورنہ اسےبیک وقت ایک سےزائدبیویاں نکاح میں رکھنےکی اجازت نہیں، تاہم چوں کہ آپ کی بیوی ناشزہ(نافرمان)ہے، اوراس دوران آپ دوسری شادی کرتےہیں توجب تک پہلی بیوی ناشزہ رہےگی تب تک اس کانفقہ بھی واجب نہیں ہوگا، اگروہ نافرمانی چھوڑکرشوہرکےگھرآجائےگی تو اس کے بعد دونوں میں عدل ومساوات سےکام لینا ضروری ہوگا۔
3:۔چوں کہ سائل کی بیوی کی طرف سے نافرنی پائی جارہی ہے،اورسائل كے اسے منع کرنےکےباوجودوہ باز نہیں آتی، اگراس صورت میں سائل اسے طلاق دےدےتوشرعاًایساکرنےکی گنجائش ہے،باقی اگروالدین منع کررہےہیں توادب ملحوظ رکھتےہوئےانہیں اپنےفیصلےپرقائل کرے۔
بدائع الصنائع ميں ہے:
"(فصل) :وأما شرط وجوب هذه النفقة فلوجوبها شرطان: أحدهما يعم النوعين جميعا أعني: نفقة النكاح ونفقة العدة۔
والثاني يخص أحدهما وهو نفقة العدة أما الأول فتسليم المرأة نفسها إلى الزوج وقت وجوب التسليم ونعني بالتسليم: التخلية وهي أن تخلي بين نفسها وبين زوجها برفع المانع من وطئها أو الاستمتاع بها حقيقةإذا كان المانع من قبلها أو من قبل غير الزوج فإن لم يوجد التسليم على هذا التفسير وقت وجوب التسليم؛ فلا نفقة لها وعلى هذا يخرج مسائل: إذاتزوج بالغة حرة صحيحة سليمة ونقلها إلى بيته فلها النفقة لوجود سبب الوجوب وشرطه وكذلك إذا لم ينقلها وهي بحيث لا تمنع نفسها وطلبت النفقة ولم يطالبها بالنقلة فلها النفقة؛ لأنه وجد سبب الوجوب وهو استحقاق الحبس وشرطه وهو التسليم على التفسير الذي ذكرنا فالزوج بترك النقلة ترك حق نفسه مع إمكان الاستيفاء فلا يبطل حقها في النفقة فإن طالبها بالنقلة فامتنعت فإن كان امتناعها بحق بأن امتنعت لاستيفاء مهرها العاجل - فلها النفقة؛ لأنه لا يجب عليها التسليم قبل استيفاء العاجل من مهرها، فلم يوجد منها الامتناع من التسليم وقت وجوب التسليم."
(كتاب النفقة، فصل في شرط وجوب هذه النفقة، ج:4، ص:19، ط:دار الكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه بخلاف ما لو امتنعت عن التمكن في بيت الزوج لأن الاحتباس قائم حتى، ولو كان المنزل ملكها فمنعته من الدخول عليها لا نفقة لها إلا أن تكون سألته أن يحولها إلى منزله أو يكتري لها منزلا، وإذا تركت النشوز فلها النفقة، ولو كان يسكن في أرض الغصب فامتنعت منه لها النفقة كذا في الكافي."
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الأول في نفقة الزوجة، ج:1، ص:545، ط:دارالفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
" ( لا ) نفقة لأحد عشر مرتدة و ( خارجة من بيته بغير حق ) وهي الناشزة حتى تعود ولو بعد سفره
قوله ( بغير حق ) ذكر محترزه بقوله بخلاف ما لو خرجت الخ وكذا هو احتراز عما لو خرجت حتى يدفع لها المهر ولها الخروج في مواضع مرت في المهر وسيأتي بعضها عند قوله ولا يمنعها من الخروج إلى الوالدين
قوله ( وهي الناشزة ) أي بالمعنى الشرعي أما في اللغة فهي العاصية على الزوج المبغضة له."
(كتاب الطلاق، باب النفقة، ج:3، ص:575، ط:سعيد)
قرآن مجید میں ہے :
" وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُمْ ذٰلِكَ أَدْنٰى أَلَّا تَعُوْلُوْا."
(النساء:3)
ترجمہ: ”اور اگر تم کواس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو دو دوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے۔“( بیان القرآن )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604101155
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن