ایک شخص کا بیوہ عورت سے نکاح طے ہوا، اب اس شخص کے لڑکے نے زکاۃ کے ذریعے اس عورت کو مالدار بنادیا،تو کیا ایسی صورت میں بیوہ سے نکاح جائز ہوگا؟ کیونکہ وہ رشتہ میں اس لڑکے کی سو تیلی ماں لگتی ہے۔
صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کامذکورہ بیوہ عورت سے نکاح کرناشرعاًجائز ہے ،باقی سوتیلی ماں اگرغریب اورمستحق زکوٰۃ ہوتوشرعاًاسے زکوٰۃ دینا جائز ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
"وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللّـٰهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْـرَ مُسَافِحِيْنَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُـمْ بِهٖ مِنْـهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِيْضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا تَـرَاضَيْتُـمْ بِهٖ مِنْ بَعْدِ الْفَرِيْضَةِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيمًا."
ترجمہ:اور شوہر والی عورتیں تم پر حرام ہیں سوائے کافروں کی عورتوں کے جو تمہاری ملک میں آجائیں ۔ یہ تم پر اللہ کا لکھا ہواہے اور ان عورتوں کے علاوہ سب تمہیں حلال ہیں کہ تم انہیں اپنے مالوں کے ذریعے نکاح کرنے کو تلاش کرونہ کہ زنا کے لئے توان میں سے جن عورتوں سے نکاح کرناچاہو ان کے مقررہ مہر انہیں دیدو اور مقررہ مہر کے بعد اگر تم آپس میں (کسی مقدار پر) راضی ہوجاؤ تو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ۔ بیشک اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔
(سورۃ النساء24)
فتاوی شامی میں ہے:
"ويجوز دفعها لزوجة أبيه وابنه وزوج ابنته."
(كتاب الزكات، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:346، ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512100158
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن