بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کوے کی بیٹ کا حکم


سوال

کوے کی بیٹ پاک ہے یا ناپاک ہے؟ اور اگر ناپاک ہے اور کسی نے بس ہلکا سا دھو کے نماز پڑھ لی تو کیا ان نمازوں کی قضا کرنی ہوگی؟

جواب

جواب سے پہلے اصولی طور پر دو باتیں ملاحظہ ہوں:

1- کوے کی اقسام:

کوے تین قسم کے ہوتے ہیں:

1- کھیت کا کوا، جو دانے اور بیج وغیرہ کھاتا ہے، غلاظت اور مردار نہیں کھاتا، یہ کوا بالاتفاق حلال ہے۔

2- وہ کوا، جو غلاظت اور مردار کھاتا ہے، یہ کوا بالاتفاق حرام ہے۔

3- وہ کوا، جو دانہ بھی کھاتا ہے اور کبھی مردار بھی کھا لیتا ہے، یہ کوا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک حلال ہے مرغی کی طرح، اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک مکروہ ہے جب کہ اس کی غالب غذا غلاظت ہو، اور اگر اس کی غالب غذا غلاظت اور مردار نہ ہو، بلکہ غالب غذا دانہ اور غلہ ہو اور کبھی غلاظت بھی کھا لیتا ہو تو وہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک بھی مکروہ نہیں، بلکہ بلا کراہت حلال ہے۔

2- پرندوں کی بیٹ کا حکم:

پرندوں کی بیٹ کے حوالے سے حکم یہ ہے کہ:

1- جو پرندے ہوا میں بیٹ نہیں کرتے جیسے مرغی اور بطخ وغیرہ، اُن کی بیٹ "نجاستِ غلیظہ" ہے۔

2- مرغی اور بطخ وغیرہ کے سوا دیگر حلال پرندوں کی بیٹ پاک ہے، جیسے کبوتر، چڑیا، وغیرہ۔

3- تمام حرام پرندوں کی بیٹ "نجاستِ خفیفہ" ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق پہلی قسم (حلال) کوے کی بیٹ پاک ہے، دوسری قسم (حرام) کوے کی بیٹ ناپاک (نجاستِ خفیفہ) ہے، اور تیسری قسم (حلال یا مکروہ) کوے کی بیٹ پہلے قول کے مطابق پاک ہے اور دوسرے قول کے مطابق ناپاک (نجاستِ خفیفہ) ہے۔

"نجاستِ غلیظہ" کا معنی ہے: وہ ناپاک چیز  جس کی ناپاکی زیادہ سخت ہو۔ "نجاستِ غلیظہ" کا حکم یہ ہے کہ اگر پتلی اور بہنے والی چیز جیسے شراب، پیشاب وغیرہ کپڑے یا بدن میں لگ جائے تو اگر پھیلاؤ میں ہتھیلی کے پھیلاؤ (ایک درہم کے پھیلاؤ یعنی  5.94 مربع سینٹی میٹر) کے برابر یا اس سے کم ہو تو معاف ہے۔ اور اگر نجاست ہتھیلی کے پھیلاؤ سے زیادہ ہو تو وہ معاف نہیں ہے۔ اور معاف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر دھوئے بغیر بھی نماز پڑھ لی تو نماز ہوجائے گی، لیکن علم ہوتے ہوئے اسے دھوئے بغیر نماز نہیں پڑھنا چاہیے، اور اگر نجاست ہتھیلی کے پھیلاؤ (ایک درہم) کے برابر  ہو تو جانتے ہوئے اس کے ساتھ نماز ادا کرنا مکروہ ہوگا، اور اس سے زیادہ ناپاکی لگی ہو اور نماز ادا کرلی گئی تو اسے پاک کرکے نماز کا اعادہ کرنا ہوگا۔

اور اگر نجاستِ غلیظہ میں سے گاڑھی چیز لگ جائے جیسے پاخانہ اور مرغی وغیرہ کی بیٹ، تو اگر وزن میں ایک درھم یعنی ساڑھے چار ماشہ یا اس سے کم ہو تو معاف ہے، بغیر دھوئے نماز درست ہے، اور اگر اس سے زیادہ لگ جائے تو معاف نہیں، بغیر دھوئے نماز درست نہیں ہے۔

"نجاستِ خفیفہ" کا معنی ہے: وہ ناپاک چیز جس کی ناپاکی ذرا کم اور ہلکی ہو۔ "نجاستِ خفیفہ" کا حکم یہ ہے کہ اگر کپڑے یا بدن پر لگ جائے تو جس حصہ یا عضو میں لگی ہے اگر اس کے چوتھائی سے کم ہو تو معاف ہے اور اگر پورا چوتھائی یا اس سے زیادہ ہو تو معاف نہیں، مثلاً اگر آستین میں لگی ہے تو آستین کے چوتھائی سے کم ہو، اور اگر ہاتھ میں لگی ہے تو ہاتھ کے چوتھائی سے کم ہو تب معاف ہے۔ (بہشتی زیور، حصہ دوم، ص:85، ط: دارالاشاعت)

صورتِ مسئولہ میں اگر وہ حرام کوے کی بیٹ تھی اور مقدارِ معافی (کپڑے یا عضو کے ایک چوتھائی) سے کم تھی تو نجاست لگے ہونے یا ہلکا سا دھونے کی حالت میں نماز درست ہوگئی، قضا کرنے کی ضرورت نہیں۔  اور اگر بیٹ مقدارِ معافی سے زیادہ (ایک چوتھائی کے برابر یا اس سے زیادہ) تھی تو اسے مکمل دھو کر پاک کرنا ضروری تھا، یعنی اگر جسم پر بیٹ لگی تھی تو اسے پاک پانی سے مکمل زائل کرکے جسم پاک کرنا ضروری تھا اور اگر کپڑے پر لگی تھی تو کپڑے کو پاک پانی سے تین دفعہ دھو اور نچوڑ کر یا جاری پانی سے اچھی طرح دھوکر پاک کرنا (ناپاکی زائل کرنا) ضروری تھا، بس ہلکا سا دھو لینے سے وہ جگہ پاک نہیں ہوئی؛ لہٰذا نماز درست نہیں ہوئی، اگر وہ نماز نہیں دہرائی گئی تو اب قضا کرنا ضروری ہے۔ کوے کے علاوہ دیگر حرام پرندوں جیسے چیل، شکرا، باز وغیرہ کی بیٹ کا بھی یہی حکم ہے۔

اور اگر وہ حلال کوے کی بیٹ تھی تو ہر صورت  میں نماز ہوگئی، دہرانے یا قضا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اور اگر کوے کی بیٹ مسجد کی زمین، دری، چٹائی، جائے نماز وغیرہ میں لگی تھی تو دو چار بیٹوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس جگہ پر بھی نماز درست ہے۔

حوالہ جات:

فتاویٰ محمودیہ (18/ 227) میں ہے:

’’کوا چند قسم کا ہے، اس کی حلت و حرمت کا مدار غذا پر ہے۔ ایک قسم وہ ہے جس کی غزا مردار اور غلیظ ہے، وہ حرام ہے چیل اور گدھ کی طرح۔ دوسری قسم وہ ہے جس کی غذا دانہ اور غلہ پر ہے، وہ حلال ہے کبوتر کی طرح۔ تیسری قسم وہ ہے جس دانہ بھی کھاتا ہے اور غلیظ بھی کھا لیتا ہے، اس کو امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ مکروہ فرماتے ہیں اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ حلال فرماتے ہیں مرغی کی طرح کہ وہ دانہ بھی کھا لیتی ہے اور غلیظ بھی کھا لیتی ہے، اور بعض بستیوں میں عام طور پر یہی کوا ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ عنایہ، فتح القدیر، عالمگیری، البحر الرائق، رد المحتار وغیرہ میں مذکورہ ہے۔‘‘

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (ج:1، ص:62، ط: دار الكتب العلمية):

’’(و منها) خرء بعض الطيور من الدجاج و البط، و جملة الكلام فيه أن الطيور نوعان: نوع لا يذرق في الهواء و نوع يذرق في الهواء.

(أما) ما لايذرق في الهواء كالدجاج و البط فخرؤهما نجس؛ لوجود معنى النجاسة فيه، و هو كونه مستقذرا لتغيره إلى نتن و فساد رائحة فأشبه العذرة، و في الإوز عن أبي حنيفة رحمه الله روايتان، روى أبو يوسف رحمه الله عنه أنه ليس بنجس، و روى الحسن رحمه الله عنه أنه نجس، (و ما) يذرق في الهواء نوعان أيضا: ما يؤكل لحمه كالحمام و العصفور و العقعق و نحوها، و خرؤها طاهر عندنا، و عند الشافعي نجس، وجه قوله أن الطبع قد أحاله إلى فساد فوجد معنى النجاسة، فأشبه الروث و العذرة. (و لنا) إجماع الأمة فإنهم اعتادوا اقتناء الحمامات في المسجد الحرام و المساجد الجامعة مع علمهم أنها تذرق فيها، و لو كان نجسا لما فعلوا ذلك مع الأمر بتطهير المسجد، و هو قوله تعالى: {أن طهرا بيتي للطائفين} [البقرة: 125] و روي عن ابن عمر - رضي الله عنهما - أن حمامة ذرقت عليه فمسحه و صلى، و عن ابن مسعود - رضي الله عنه - مثل ذلك في العصفور، و به تبين أن مجرد إحالة الطبع لا يكفي للنجاسة ما لم يكن للمستحيل نتن و خبث رائحة تستخبثه الطباع السليمة، و ذلك منعدم ههنا على أنا إن سلمنا ذلك لكان التحرز عنه غير ممكن؛ لأنها تذرق في الهواء فلا يمكن صيانة الثياب و الأواني عنه، فسقط اعتباره للضرورة كدم البق و البراغيث و حكى مالك في هذه المسألة الإجماع على الطهارة، و مثله لا يكذب فلئن لم يثبت الإجماع من حيث القول يثبت من حيث الفعل و هو ما بينا.

و ما لا يؤكل لحمه كالصقر و البازي و الحدأة و أشباه ذلك، خرؤها طاهر عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله، و عند محمد رحمه الله نجس نجاسة غليظة، وجه قوله أنه وجد معنى النجاسة فيه؛ لإحالة الطبع إياه إلى خبث و نتن رائحة، فأشبه غير المأكول من البهائم، و لا ضرورة إلى إسقاط اعتبار نجاسته لعدم المخالطة؛ لأنها تسكن المروج و المفاوز بخلاف الحمام و نحوه، (و لهما) أن الضرورة متحققة لأنها تذرق في الهواء فيتعذر صيانة الثياب و الأواني عنها، و كذا المخالطة ثابتة بخلاف الدجاج و البط؛ لأنهما لا يذرقان في الهواء فكانت الصيانة ممكنة.‘‘

و فيه أيضاّ (ج:5، ص:40):

’’الغراب الأسود الكبير لما روي عن عروة عن أبيه أنه سئل عن أكل الغراب فقال: من يأكل بعد ما سماه الله تبارك و تعالى فاسقًا، عنى بذلك قول رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خمس من الفواسق يقتلهن المحرم في الحل و الحرم»؛ و لأن غالب أكلها الجيف فيكره أكلها كالجلالة، و لا بأس بغراب الزرع؛ لأنه يأكل الحب و الزرع و لا يأكل الجيف هكذا روى بشر بن الوليد عن أبي يوسف قال: سألت أبا حنيفة - عليه الرحمة - عن أكل الغراب فرخص في غراب الزرع و كره الغداف فسألته عن الأبقع فكره ذلك.

و إن كان غرابًا يخلط فيأكل الجيف و يأكل الحب لايكره في قول أبي حنيفة عليه الرحمة قال: و إنما يكره من الطير ما لايأكل إلا الجيف. و لا بأس بالعقعق؛ لأنه ليس بذي مخلب و لا من الطير الذي لايأكل إلا الحب كذا روى أبو يوسف أنه قال: سألت أبا حنيفة - رحمه الله - في أكل العقعق فقال: لا بأس به، فقلت: إنه يأكل الجيف فقال: إنه يخلط. فحصل من قول أبي حنيفة أن ما يخلط من الطيور لا يكره أكله كالدجاج، و قال أبو يوسف - رحمه الله -: يكره؛ لأن غالب أكله الجيف.‘‘

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (ج:8، ص:195، ط: دار الكتاب الإسلامي):

’’[أكل غراب الزرع] قال - رحمه الله -: (و حل غراب الزرع) لأنه يأكل الحب و ليس من سباع الطير و لا من الخبائث قال - رحمه الله -: (لا الأبقع - الذي يأكل الجيف - و الضبع و الضب و الزنبور و السلحفاة و الحشرات و الحمر الأهلية و البغل) يعني: هذه الأشياء لا تؤكل أما الغراب الأبقع فلأنه يأكل الجيف فصار كسباع الطير و الغراب ثلاثة أنواع: نوع يأكل الجيف فحسب فإنه لا يؤكل، و نوع يأكل الحب فحسب فإنه يؤكل، و نوع يخلط بينهما و هو أيضا يؤكل عند الإمام وهو العقعق لأنه يأكل كالدجاج وعن أبي يوسف أنه يكره أكله لأنه غالب أكله الجيف، و الأول أصح.‘‘

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:6، ص:305، ط: دار الفكر):

’’(و الغراب الأبقع) الذي يأكل الجيف لأنه ملحق بالخبائث قاله المصنف.

و قال في الرد:

(قوله : والغراب الأبقع) أي الذي فيه بياض و سواد، قهستاني. قال في العناية: و أما الغراب الأبقع و الأسود فهو أنواع ثلاثة: نوع يلتقط الحب و لا يأكل الجيف و ليس بمكروه. و نوع لا يأكل إلا الجيف و هو الذي سماه المصنف الأبقع و إنه مكروه. و نوع يخلط يأكل الحب مرة و الجيف أخرى و لم يذكره في الكتاب، و هو غير مكروه عنده مكروه عند أبي يوسف، اهـ. و الأخير هو العقعق، كما في المنح.‘‘

الفتاوى الهندية (ج:5، ص:290، ط: دار الفكر):

’’عن إبراهيم قال: كانوا يكرهون كل ذي مخلب من الطير و ما أكل الجيف و به نأخذ، فإن ما يأكل الجيف كالغداف و الغراب الأبقع مستخبث طبعا، فأما الغراب الزرعي الذي يلتقط الحب مباح طيب، و إن كان الغراب بحيث يخلط فيأكل الجيف تارة و الحب أخرى فقد روي عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه يكره، و عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس بأكله و هو الصحيح على قياس الدجاجة، كذا في المبسوط.‘‘

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:1، ص:316-321، ط: دار الفكر):

’’(و عفا) الشارع (عن قدر درهم) و إن كره تحريما، فيجب غسله، و ما دونه تنزيها فيسن، و فوقه مبطل فيفرض، و العبرة لوقت الصلاة لا الإصابة على الأكثر، نهر، (و هو مثقال) عشرون قيراطًا (في) نجس (كثيف) له جرم (و عرض مقعر الكف) و هو داخل مفاصل أصابع اليد (في رقيق من مغلظة كعذرة) آدمي، و كذا كل ما خرج منه موجبًا لوضوء أو غسل مغلظ.

(و عفي دون ربع) جميع بدن و (ثوب) و لو كبيرًا، هو المختار، ذكره الحلبي و رجحه في النهر، على التقدير بربع المصاب كيد و كم و إن قال في الحقائق : و عليه الفتوى (من) نجاسة (مخففة كبول مأكول) و منه الفرس، و طهره محمد (و خرء طير) من السباع أو غيرها (غير مأكول) و قيل: طاهر و صحح، ثم الخفة إنما تظهر في غير الماء فليحفظ.‘‘

و فيه أيضاّ (ج:1، ص:320):

’’(و خرء) كل طير لا يذرق في الهواء كبط أهلي (و دجاج) أما ما يذرق فيه، فإن مأكولا فطاهر و إلا فمخفف.‘‘

الجوهرة النيرة (ج:1، ص:38، ط: المطبعة الخيرية):

’’و اختلفوا في خرء سباع الطير كالغراب و الحدأة و البازي و أشباه ذلك، قال أبو حنيفة رحمه الله: لا يمنع الصلاة ما لم يكن كثيرا فاحشا، و قال محمد رحمه الله: هو مغلظ إذا كان أكثر من قدر الدرهم منع الصلاة، و قول أبي يوسف رحمه الله مضطرب: ففي الهداية هو مع أبي حنيفة و قال الهندواني: هو مع محمد، و أما خرء ما يؤكل لحمه من الطيور فطاهر عندنا كالحمام و العصافير؛ لأن المسلمين لا يتجنبون ذلك في مساجدهم و في المسجد الحرام من لدن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى يومنا هذا، و لو كان نجسا لجنبوه المساجد كسائر النجاسات، كذا في الكرخي.‘‘

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144202200554

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں