بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کٹے میں چھ حصوں کی قربانی کرنے کا حکم


سوال

چھ حصوں پر کٹے کی قربانی جائز ہے؟

جواب

شریعتِ مطہرہ میں قربانی کے جانور کی قربانی درست ہونے کے لیے ان کے لیے ایک خاص عمر کی تعیین ہے، یعنی:  گائے،  بھینس وغیرہ کی عمر کم از کم دو سال پورا ہونا ضروری ہے، لہذا کٹے کی قربانی کے درست  ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی عمر دو سال مکمل ہو، اگر دو سال مکمل نہیں ہوں گے تو قربانی درست نہیں ہو گی، پھر   اگر یقینی طور پر معلوم ہو کہ ان جانوروں کی اتنی عمریں ہوگئی ہیں (مثلاً: جانور کو اپنے سامنے پلتا بڑھتادیکھا ہو اور ان کی عمر بھی معلوم ہو) تو ان کی قربانی درست ہے، پکے دانت نکلنا ضروری نہیں،اگرچہ دو دانت مکمل نہ نکلے ہوں،  تاہم آج کل چوں کہ فساد کا غلبہ ہے؛ اس لیے صرف بیوپاری کی بات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اس لیے  احتیاطاً دانت کو عمر معلوم کرنے کے لیے علامت کے طور پر مقرر کیا گیا ہے، لہذا جو جانور خود نہ پالا ہو جب تک اس جانور کے مکمل دو دانت نہ دیکھ لیے جائیں اس وقت تک قربانی نہ کی جائے۔

باقی ایک کٹے میں سات حصے کیے جا سکتے ہیں، اگر کوئی چھ حصے کرنا چاہے تو ایسا کرنا بھی درست ہے۔

فتاوی هنديه ميں هے:

"(وأما سنه) فلايجوز شيء مما ذكرنا من الإبل والبقر والغنم عن الأضحية إلا الثني من كل جنس وإلا الجذع من الضأن خاصةً إذا كان عظيماً، وأما معاني هذه الأسماء فقد ذكر القدوري: أن الفقهاء قالوا: الجذع من الغنم ابن ستة أشهر، والثني ابن سنة۔ والجذع من البقر ابن سنة، والثني منه ابن سنتين. والجذع من الإبل ابن أربع سنين، والثني ابن خمس. وتقدير هذه الأسنان بما قلنا يمنع النقصان، ولايمنع الزيادة، حتى لو ضحى بأقل من ذلك شيئاً لايجوز، ولو ضحى بأكثر من ذلك شيئاً يجوز ويكون أفضل".

(كتاب الاضحية،الباب الخامس في بيان محل إقامة الواجب، جلد: 5، صفحه: 297، طبع: دار الفكر)

فتح القدیر میں ہے:

"ويدخل في البقر الجاموس لأنه من جنسه."

(كتاب الاضحية، جلد:9، صفحه: 517، طبع: دار الفكر)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ميں هے:

''ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء."

(كتاب التضحية، فصل في محل إقامة الواجب في الأضحية، جلد:5، صفحه: 70، طبع: دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411101471

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں