بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طفیلی بن کر دعوت میں جانا


سوال

اگر کوئی شخص بغیر دعوت کسی کی شادی پر جائے اور میزبان(دلہا،اس کا باپ یا اقارب) میں سے کوئی اس کو شادی ہال کے گیٹ پر "خوش آمدید" کرے اور تشریف رکھنے کا بولے،یاد رہے کہ میزبان اس کو نہیں جانتا اور اس کو نہیں معلوم آپ بغیر دعوت کے آئے ہیں یا کسی کے ساتھ آئے ہیں یا دعوت نامے پر آئے ہیں تو کیا اسے دعوت دینا شمار ہوجائے گا؟

حدیث کا مفہوم ہے کہ آپ اگر بن بلائے جاتے ہیں تو آپ چور بن کر گھستے ہیں اور لٹیرے بن کر نکلتے ہیں،   کیا مذکورہ شخص  اس حدیث کے حکم میں داخل ہوگا یا نہیں ؟

جواب

واضح رہےکسی کی شادی  یا دعوت   میں بن بلائے  (صراحتاً یا  دلالتاً اجازت کے بغیر )جانا اور وہاں کھانا وغیرہ کھانا  ایک انتہائی  غیر اخلاقی اور  ناجائز کام  ہے، احادیث میں اس عمل کے متعلق سخت الفاظ میں مذمت بیان کی  گئی ہے ،چنانچہ مذکورہ شخص کو چاہیے کہ  میزبان کو کسی طرح  شادی میں آنے اور  وہاں کھانا کھانے کی اطلاع  دے کر ان سے معافی مانگ  لے اور آئندہ اس برے کام سے خود کو  بچائے۔

صورتِ مسئولہ میں  جس شخص کو دعوت  نہ ہوں،وہ تو بن بلائے داخل ہوا ہےاور  دلہا یا اس کا باپ یا اقارب میں سے کوئی اس کو  شادی ہال کے  دروازے پر خوش آمدید کرے اور تشریف رکھنے کا بولے، اور اس کے گمان کے مطابق  وہ شخص مدعو  ہے،تو  عرف میں یہ    اِجازت شمار نہیں  ہوتی ،ایسا کرنے والا شخص طفیلی ہے اور مندرجہ ذیل حدیث  مبارک کا مصداق ہے۔

 حدیث شریف میں ہے:

"قال عبد الله بن عمر: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "‌من ‌دعي ‌فلم ‌يجب فقد عصى الله ورسوله، ومن دخل على غير دعوة دخل سارقا وخرج مغيرا."

(السنن أبي داود ‌‌،  كتاب الأطعمة، باب ما جاء في إجابة الدعوة،  ج:5، ص: 569 ، الرقم:3739، ط:دار الرسالة العالمية)

ترجمہ:"نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے ،جس کو دعوت دی گئی ،اور اس نے دعوت قبول نہیں کی ،تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی، اورجو شخص بغیر دعوت کے (کھانے کے لیے ) گیا، تو وہ چور بن کر داخل ہوا ،اور لٹیرا بن کر واپس ہوا."

الموسوعة الفقهية میں ہے:

"لا يجوز أن يدخل إلى الولائم وغيرها من الدعوات من لم يدع إليها ، فإن في هذا دناءة ومذلة ، ولا يليق ذلك بالمؤمن ، وفي الحديث من رواية ابن عمر مرفوعا " من دخل على غير دعوة دخل سارقا وخرج مغيرا"  ومن يفعل ذلك يسمى الطفيلي ۔ وعلى هذا فالتطفل حرام عند جمهور الفقهاء ، ما لم يكن غير المدعو تابعا لمدعو ذي قدر يعلم أنه لا يحضر وحده عادة ، فلا يحرم ، لأنه مدعو حكما بدعوة متبوعه."

(الموسوعة الفقهية الكويتية  ،دعوة،التطفل على الدعوات،  ج:20، ص:335، ط:دارالسلاسل الكويت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411102382

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں