میں اپنی بیوی کو ایک طلاق دینا چاہتا تھا،اس نیت سے میں اسٹامپ فروش کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ میں اپنی بیوی کو ایک طلاق کا نوٹس بھیجنا چاہتا ہوں،اس نے مجھ سے میرا شناختی کارڈ لیا اور میری بیوی کا نام مع ولدیت پوچھ کر طلاق کا نوٹس تیار کیا،اس بندے نے طلاق کے نوٹس کےتین پرنٹ نکالے اور تینوں پر یہ عنوان ڈالا:"طلاق نامہ اول/ طلاق نامہ دوم/ طلاق نامہ سوم"میں نے اس وقت نہ یہ نوٹس پڑھا اور نہ ہی اس پر لکھے گئے عنوانات پڑھے،میں صرف ایک طلاق دینا چاہتا تھا،میں نے یہ سمجھا کہ ان تین صفحات میں سے ایک میں اپنی بیوی کو بھیجوں گا اور ایک یونین کونسل میں جمع ہوگا اور ایک عدالت میں جمع ہوگا،اس کے بعد اس بندے نے تینوں صفحات کے آخر میں مجھ سے دستخط کروائےاور انگوٹھا لگوایا،اور گواہان نے بھی دستخط کر دیے،اس کے بعد طلاق نامہ اول جس صفحے پر لکھا تھا ،وہ مجھے اس بندے نے ایک لفافے میں ڈال کر دیا،یہ لفافہ میں نے فوراً ڈاک خانہ جاکر اپنی بیوی کو بھیج دیا،اور بقیہ دو صفحے میں گھر لے آیا،گھر آکر میں نے وہ دو صفحے دیکھے تو ان پر طلاق نامہ دوم اور سوم کا عنوان لکھا ہوا تھامیں نے اسی وقت وہ دونوں کاغذ پھاڑ دیے،یہ معاملہ میرے ایک چچا نے بھی دیکھا،اس کے بعد ہم دونوں میاں بیوی نے رجوع بھی کر لیا۔
سوال یہ ہے کہ مذکورہ صورتِ حال میں میری بیوی پر ایک طلاق واقع ہوئی ہے یا تین طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟
تنقیح:
سائل کا بیان:میں حلفا یہ کہتا ہوں کہ میں صرف ایک طلاق دینا چاہتا تھا،اور اسٹامپ پیپر والے سے بھی صرف ایک طلاق کا پیپر بنانے کا کہا تھا،اس کے پاس پہلے سے کمپیوٹر میں تیار طلاق نامہ موجود تھا،اس میں میرا اور میری بیوی کا نام ڈال کر نکال دیا،نکالنے کے بعد دستخط سے پہلے میں نے صرف طلاق نامہ اول کا عنوان پڑھا تھا،باقی دو کا عنوان پڑھے اسٹامپ پیپر والے نے مجھ سے اس پر دستخط لے لیا،اس کے بعد طلاق نامہ اول میں نے ڈاک کے ذریعے بیوی کو بھیجا،اور باقی دو ساتھ گھر لے آیا گھر میں جب میں نے دیکھا ،تو اس پر طلاق نامہ دوم اور سوم لکھا ہواتھا،تو میں نے والد صاحب کو دے کر کہا کہ اس کو پھاڑ دیں،اور خود کراچی آگیا۔
طلاق نامہ اول کے الفاظ درج ذیل ہیں:
"مسماۃ مذکورہ کے خواہش پر میں روبرو گواہان مسماۃ مذکورہ کو طلاق اول دے کر حقوقِ زوجیت سے فارغ کر دیتا ہوں"۔
واضح رہے کہ مفتی غیب کا علم نہیں جانتا،غیب کا علم صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے،اللہ تعالی کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے،لہذا اگر کوئی سائل غلط بیانی کرکے اپنے حق میں جواب حاصل کرلے،تو اس کی تمام تر ذمہ داری خود سائل پر ہوگی،مفتی اس سے بری الذمہ ہوگا۔
مذکورہ تفصیل کی رو سےصورتِ مسئولہ میں سائل کا بیان اگر واقعۃً صحیح ہےکہ سائل نے اسٹامپ پیپر بنانے والے کو طلاق نامہ میں ایک طلاق لکھنے کا کہا تھا اور طلاق کا نوٹس اول بنوانے کا کہا تھا،لیکن اس نے اپنے طرف سے دو طلاق نامے اور بھی بنائے، اور ہر ایک میں الگ الگ طلاق لکھی،اور علٰیحدعلٰیحدہ عنوان ڈالے، اور سائل نے دستخط کرتے وقت اس کو پڑھا نہیں تھا اور نہ ہی اس کو علم تھا کہ اس میں دو اور طلاقیں بھی مذکور ہیں تو ایسی صورت میں سائل کی بیوی پر صرف ایک طلاق رجعی واقع ہو چکی ہے۔
نیز اگر سائل نے عدت کے دوران رجوع کیا ہے، تو رجوع درست اور ثابت ہے، اور آئندہ کے لیے سائل کودو طلاق کا اختیار باقی ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"في المنتقى لو كتب كتابا في قرطاس وكان فيه إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق ثم نسخه في كتاب آخر أو أمر غيره أن يكتب نسخة ولم يملل هو فأتاها الكتابان طلقت تطليقتين في القضاء إذا أقر أنهما كتاباه أو قامت به بينة وأما فيما بينه وبين الله تعالى فيقع عليها تطليقة واحدة بأيهما أتاها ويبطل الآخر لأنهما نسخة واحدة وفيه أيضا رجل استكتب من رجل آخر إلى امرأته كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه وطواه وختم وكتب في عنوانه وبعث به إلى امرأته فأتاها الكتاب وأقر الزوج أنه كتابه فإن الطلاق يقع عليها وكذلك لو قال لذلك الرجل ابعث بهذا الكتاب إليها أو قال له اكتب نسخة وابعث بها إليها وإن لم تقم عليه البينة ولم يقر أنه كتابه لكنه وصف الأمر على وجهه فإنه لا يلزمه الطلاق في القضاء ولا فيما بينه وبين الله تعالى وكذلك كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع به الطلاق إذا لم يقر أنه كتابه كذا في المحيط والله أعلم بالصواب."
(کتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل السادس في الطلاق بالكتابة، ج:1، ص:379، ط:رشیدیه)
فتاوی شامی میں ہے:
"ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابة أو قال للرجل: ابعث به إليها، أو قال له: اكتب نسخة وابعث بها إليها، وإن لم يقر أنه كتابه ولم تقم بينة لكنه وصف الأمر على وجهه لا تطلق قضاء ولا ديانة، وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اهـ ملخصا."
(کتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، ج:3، ص:247، ط:ایچ ایم سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية."
(کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1، ص:470، ط:رشیدیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100443
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن