بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کاتب کو مطلق طلاق لکھنے کا کہنے کی صورت میں اس کے تین طلاق لکھنے سے کتنی طلاقیں واقع ہوں گی ؟


سوال

میں نے مؤرخہ 03،06،2021 کو ایک اسٹام پیپر پر ایک طلاق نامہ تیار کروایا اور پھر اس تحریر پردستخط کیے ،جس کے تیار کرواتے وقت میں نے عرائض نویس سے کہا کہ طلاق نامہ بنوانا ہے،لیکن عرائض نویس نے طلاق کے متعلق مجھ سےنہیں پوچھا کہ کتنی لکھنی ہیں اور اس نے تین طلاقیں مجھ سے پوچھے بغیر لکھ دیں اور میں نے بغیر دیکھے اور پڑھے دستخط کردیئے ،حالاں کہ میرا تین طلاقیں دینے کا ہر گز کوئی ارادہ نہیں تھااور پھر  میں نے یہ تحریر نہ اپنی بیوی کے حوالے کی اور نہ ہی اس تحریر کی بابت زبانی طور پر اپنی بیوی کو آگاہ کیا اور اس تحریر کو تیار کرنے کے بعد میں نے غوروفکر کیا اور اپنے عمل کو غلط فیصلہ سمجھا اور اپنی بیوی کے ساتھ رجوع کی نیت سے حقوقِ زوجیت اور دیگر حقوق ادا کرنے شروع کردیئے اور ہم دونوں میاں بیوی اکٹھے ہی رہے اور اس دوران اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہمارے مابین کوئی ناراضگی اور تجسس نہ ہوا،مذکورہ طلاق نامہ میرے گھر میں میرے کاغذات میں پڑا ہوا تھا، کچھ عرصہ قبل وہ طلاق نامہ میری بیوی کے ہاتھ لگا،جسے پڑھنے کے بعد میری بیوی نے پوچھا کہ یہ تم نے لکھا ہواہے؟ میں نے اسے جواباً بتایا کہ یہ میں نے تیار کیا تھا ،مگر پھر اس پر عمل کے بجائے میں نے توبہ واستغفار کرکے اس سے دل ہی  دل میں رجوع کرلیا اور اسی وجہ سے آپ سے اظہار نہیں کیا تھا تاکہ تعلقات خراب نہ ہوں،اب میری بیوی ناراض ہو کر چلی گئی ہے اور کہتی ہے کہ یہ طلاق ہوگئی ہے ،آپ قرا ن وسنت کی روشنی میں بتائیں کہ آیا اس تحریر سے طلاق واقع ہوئی ؟ اور اگر طلاق واقع ہوئی تو وہ کتنی طلاقیں شمار ہوں گی ؟ مزید یہ کہ میرا رجوع کرنے کا کیا حکم ہے اور جو میں نے کیا ہے ،اس کے ساتھ حقوقِ زوجیت جو ادا کرتا رہا ہوں تو اس کا کیا حکم ہے؟راہ نمائی فرمادیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے عریضہ نویس سے مطلقاً یہ کہا کہ طلاق نامہ بنوانا ہے اور طلاق کا عدد ذکر نہیں کیا تو یہ طلاق کا اقرار ہوا اور اس سے سائل کی بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی اورجب سائل نے صرف مذکورہ الفاظ کہے اور  عریضہ نویس نے تین طلاقیں لکھ دیں اور سائل کی ہر گز تین طلاق کی نیت نہیں تھی اور عریضہ نویس کےلکھنے کے بعد سائل نے اسے  دیکھے اور  پڑھے بغیر اس پر دستخط کیے تو اس سے تین طلاقیں واقع نہیں ہوئیں۔

اور جب سائل نے مذکورہ طلاق نامہ تیار کرنے کے بعد اپنے فیصلے کو غلط سمجھا اور رجوع کی نیت سے بیوی کے ساتھ حقوقِ زوجیت ادا کیے تو یہ عدت کے اندر رجوع ہوا ،لہذا دونوں بدستور میاں بیوی  ہیں اور اب آئنده  سائل کو صرف دو طلاق کا اختیار ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقرارا بالطلاق وإن لم يكتب."

(كتاب الطلاق، مطلب في الطلاق بالكتابة ،246/3،ط:سعيد )

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإن لم تقم عليه البينة ولم يقر أنه كتابه لكنه وصف الأمر على وجهه فإنه لا يلزمه الطلاق في القضاء ولا فيما بينه وبين الله تعالى وكذلك كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع به الطلاق إذا لم يقر أنه كتابه كذا في المحيط."

(كتاب الطلاق، الفصل السادس في الطلاق بالكتابة، 379/1 ، ط: رشيدية)

درر الحکام میں ہے:

"(وتصح) أي الرجعة فيما دون الثلاث من طلقة وطلقتين وهذا في الحرة ...(وإن أبت) المرأة عن الرجعة فإن الأمر بالإمساك مطلق فيشمل التقادير.(وندب إعلامها) أي إعلام الزوج إياها بالرجعة لأنه لو لم يعلمها لربما تقع المرأة في المعصية ...(و) ندب (الإشهاد) أيضا احترازا عن التجاحد وعن الوقوع في مواقع التهم لأن الناس عرفوه مطلقا فيتهم بالقعود معها، و إن لم يشهد صحت."

(کتاب الطلاق،باب الرجعة،384/1 ،ط:داراحیاءالكتب العربية)

فتاوی مفتی محمود میں ہے؛

"چوں کہ طلاق نامہ لکھنے والے نے کہا کہ میرا طلاق نامہ لکھ دو ،لہذا یہ الفاظ اقرار طلاق ہوں گے ،الفاظ سے ایک طلاقِ رجعی واقع ہوجائے گی ،خواہ لکھنے والا لکھے یا نہ لکھے اور جب لکھوانے والا صرف مذکورہ الفاظ کہے اور کاتب نے تین لکھ دی ،لکھوانے والے نے نہ خود پڑھا تھا اور نہ اس کو سنایا تھا اور طالق تین کا اقرار بھی نہیں کرتا،تو تین واقع نہ ہوں گی۔"

( کتاب الطلاق،تحریری طلاق کا بیان ،229/6،ط:جمعیۃ پبلیکیشنز )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404100869

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں