بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کاتب کو طلاق نامہ بنوانے کو کہا، اس نے تین طلاق کا طلاق نامہ بنوایا، نہ پڑھاہے اور نہ ہی طلاق نامہ سنایا ہے


سوال

میرا نکاح 21۔6 کو ہو اتھا ،ہمارے تعلقات 13 جولائی 2021 تک صحیح تھے ، کچھ خامیاں مجھ میں بھی ہیں ،جو کم دکھائی دینے کی وجہ سے میں شک کی بناپر اس ڈر کی وجہ سے کہ میں کپڑے پکڑکر دھو یا کرتاہوں کہ کہیں کپڑ  وں  پر گندے  چھنٹے  تو نہیں آئے اور دوسرا میرے ساتھ فراڈ بھی ہوا جس کا مجھے  غصہ اور ذہنی ٹینشن  ہے اور میں تھو ڑانفسیاتی  بھی ہوچکاہوں ،  میرے بیگم میرے پیھچے  لگی تھیں کہ میرا فیصلہ کرو اور ہمارے تعلقات دن بدن خراب ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ 22 ۔1۔ 10 کو علیحدہ گی ہی ہو گئی ،اور بیگم نے گھر کا دروازہ  بند کردیا اور کھو لا نہیں ، میں باہر نکل کر غصہ میں کہا بیگم جا تجھے  طلاق نہیں دوں گا ، جس گھر میں کرایہ پر رہ رہا تھا،ا س  مالک مکان  کے بچے اور سامنے والی سندھن عورت نے کہا کہ آنٹی  آپ کو انکل نے طلاق دی ہے،  جب کہ یہ لو گ  غلط فہمی کا شکار ہیں اور بیگم نے محلے والوں کی بات مانی تو  اس کے بعد  میں  دفتر گیا اور طلاق نامہ بنوایا ،  لیکن میں اندھاہوں،  بس میں نے دفتر میں بتایا کہ طلاق نامہ بنواؤ  مجھے معلوم نہیں کہ کتنے طلاقو ں کا طلاق نامہ بنوایاہے اور نہ ہی مجھے سنایاہے اور نہ میں نے  دستخط کیا  ہے اور نہ کسی  گواہ نے دستخط کیا ہے،  راہ  نمائی فرمائیں طلاق ہوئی یانہیں ؟

جواب

صور تِ  مسئولہ میں سائل کی بیوی  پر  ایک طلاق رجعی واقع  ہوگئی ہے ،سائل عدت کے اندر اپنی بیوی سے رجوع کرسکتاہے ، اس کےبعد سائل کو دوطلاقوں کا اختیار حاصل ہوگا۔

رد المحتار میں ہے۔

"و إن كانت مرسومةً يقع الطلاق نوى أو لم ينو ... و لو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقرارًا بالطلاق و إن لم يكتب؛ و لو استكتب من آخر كتابًا بطلاقها و قرأه على الزوج فأخذه الزوج و ختمه و عنونه و بعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه."

وفیه أیضاً:

"و أراد بما اللفظ أو ما يقوم مقامه من الكتابة المستبينة أو الإشارة المفهومة."

 (کتاب الطلاق، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ،ج 3/ص246/ط،سعید)

بدائع الصنائع میں ہے :

"و كذا التكلم بالطلاق ليس بشرط فيقع الطلاق بالكتابة المستبينة و بالإشارة المفهومة من الأخرس لأن الكتابة المستبينة تقوم مقام اللفظ."

(کتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق و بعضها يرجع إلى الزوج3/100ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100847

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں