بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

كثرت عمره افضل ہے يا كثرت طواف ؟


سوال

۱۔ جب کوئی شخص عمرہ یاحج کرنے کیلئے چلا جائے کیا وہاں   پر بار بار عمرہ کرسکتا ہے   ؟  بار بار عمرہ کرنا افضل ہے یا طواف؟   

۲۔عمرہ نزدیک جگہ سے افضل ہے یا دور جگہ سے؟   مثال کے طور کوئی مسجد عائشہ رضی اللہ عنہا   سے احرام باندھے اور کوئی شخص مدینہ منورہ سے احرام باندھے ۔

جواب

۱۔متعدد عمرے کرنا یا ایک عمرہ کرکے پھر حرم میں ہی رہتے ہوئے متعدد طواف کرنا دونوں جائزہیں۔ البتہ آفاقی شخص (یعنی جو میقات سے باہر رہنے والا ہو) کے لیے" کثرتِ عمرہ "افضل ہے ، اور مکی کے لیے  کثرتِ طواف  افضل ہے، اس لیے اگر زائر   حلّ تک جانے اور واپس آنے کے کرایہ اور حلق وغیرہ کے اخراجات کا متحمل ہو تو اسے حسبِ استطاعت عمرے کرنے چاہییں، اور اگر گنجائش نہ ہو تو کثرت سے طواف کرنے چاہییں۔ واضح رہے کہ یہ حکم صرف افضلیت کے اعتبار سے ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص گنجائش کے باوجود عمرے کثرت سے نہیں کرتا، بلکہ حرم میں رہ کر طواف کرتاہے تو اس میں کوئی کراہت نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی اور ضرورت (مثلاً: سفر میں کوئی مریض یا ضعیف ساتھ ہو جس کی خدمت میں رہنا ضروری ہو) کی وجہ سے اضافی عمرے نہ کرسکے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

پے در پے عمرہ کرنے کی   آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ترغیب دی ہے ،اوربعض صحابہ اور تابعین سے بھی اس کی ترغیب منقول ہے ،چناچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "پے در پے حج ،عمرہ کیا کرو کیوں کہ یہ فقر اور گناہوں کو ایسے ختم کردیتے ہیں جس طرح بھٹی  لوہے اور سونے ،چاندی کے میل کو ختم کردیتی ہے" اور ایک موقع پر ارشاد فرمایا  "(دوسرا)عمرہ (پہلے)عمرے تک کے سارے گناہوں کا کفارہ ہے "،  حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ\" وہ ایک عرصہ تک مکہ میں آکر رہے اور جب بھی ان کے بال بڑے ہوتے تھےوہ عمرہ کر لیا کرتے تھے  "

مناسك ملا علي القاري  میں  ہے:

"ولایکره الإکثار منها أي من العمرة في جمیع السنة، بل یستحب أي الإکثار منها، وأفضل مواقیتها لمن بمکة التنعیم والجعرانة، والأول أفضل عندنا ".

(مناسك ملا علي القاري، ۴۶۷)

۲۔  نیز  آفاقی شخص ایک عمرہ مکمل کرکے تمام ارکان سے فارغ ہونےکے بعد حدودِ حرم میں موجود ہو تو وہ مکی کے حکم میں ہوگا اور وہ \'حل \'میں (حدودِ حرم سے باہر اور میقات کے اندر) کسی بھی جگہ جاکر عمرہ کا احرام باندھ کر دوسرا عمرہ کرسکتا ہے، البتہ تنعیم (یعنی مسجد عائشہ) سے جاکر احرام باندھنا افضل اور بہتر ہے۔

در مختار میں ہے:

"والمیقات لمن بمکة یعني من بداخل الحرم للحج الحرم وللعمرة الحل ؛ لیتحقق نوع سفر، والتنعیم أفضل'․ (درمختار) وفي الشامية: 'والمراد بالمکي من کان داخل الحرم سواء کان بمکة أولا، وسواء کان من أهلها أو لا․"

(كتاب الحج، فصل في الاحرام وصفة المفرد بالحج، ص:158، ط:دار الكتب العلمية - بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144410101214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں