کشف المحجوب کتاب کا خود مطالعہ کرنا کیسا ہے ؟ اور جو حکایات درج ہیں ان پر یقین رکھنا کیسا ہے؟
”کشف المحجوب“ فارسی زبان میں فن تصوف کی مایہ ناز اور شہرۂ آفاق کتاب ہے، جس کے کئی زبانوں میں تراجم ہوئے، اس کے مصنف عارف کامل، عالم ربّانی حضرت ابو الحسن علی بن عثمان ہجویری داتا گنج بخش رحمہ اللہ (المتوفى 465 ھ) ہیں، جو سیدنا حضرت حسن بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد میں سے ہیں ، سید ، ہاشمی اور حسنی ہیں، ان کا شمار اہل علم کےہاں معتبر اور مستند بزرگان دین میں سے ہوتا ہے، ہر زمانہ کے اہل علم اور ارباب طریقت و حقیقت نے اس کتاب کی عظمت اور افادیت کا اعتراف کیا ہے ، عارف باللہ حضرت مولانا جامی قدس سرہ اپنی مشور عام کتاب ”نفحات الانس “ میں حضرت علی ہجویری رحمہ اللہ کے بارے میں کے بارے میں رقم طراز ہیں :
" عالم و عارف بود و صحبت بسیاری از مشائخ دیگر رسیده است، صاحب کتاب كشف المحجوب است کہ از کتب معتبرہ مشہورہ درین فن است و لطائف و حقائق بسیار در آں کتاب جمع کرده است"
ترجمہ : ”آپ عالم بھی تھے اور رموزو حقائق کے عارف بھی تھے، کثیر التعداد مشائخ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے اور آپ ”کشف المحجوب‘‘ کے مصنف ہیں اور یہ کتاب فن تصوف کی معتبر اور مشہور کتب میں سے ہے ، آپ نے اس کتاب میں بے شمار لطائف و حقائق کو جمع کر دیا ہے ۔“
(ماخوز از مقدمہ اردو ترجمہ کشف المحجوب ، ص: 50، ط: ضیاء القرآن پبلی کیشنز)
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ کشف المحجوب فن تصوف کی معتبر کتاب ہے اور اس کے مصنف علماءِ تصوف کے ہاں معتمد ہیں، البتہ تصوف کی کتابوں میں جو حکایات ہوئی ہیں وہ تمثیل کے لیے ہوتی ہیں، صحت اور دلیل کے لیے نہیں ہوتیں، البتہ جو شخص فن تصوف کی باریکیوں ، رموز وحقائق اور لطائف سے واقف نہ ہو ، اور نہ ہی اس کو اس فن کے اہلِ علم سے وابستگی ہو تو ممکن ہے کہ اس کتاب میں بعض تعبیرات کے ظاہر سے اس کو اشتباہ ہو، لہذا اس کو چاہیے کہ وہ فنِ تصوف کے کسی ماہر، مستند عالم کی زیر نگرانی اس کتاب کا مطالعہ کرے، اور جو بات سمجھ میں نہ آئے وہ ان سے استفسار کرکے سمجھ لے؛ تاکہ خود مطالعہ کرنے کی وجہ سے گمراہی کے خطرات سے محفوظ رہے۔
نزهة الخواطر و بهجة المسامع و النواظر میں ہے :
"علي بن عثمان الهجويري: الشيخ الإمام العالم الفقيه الزاهد أبو الحسن علي بن عثمان بن أبي علي الجلابي- بضم الجيم وتشديد اللام وكسر الموحدة- الهجويري الغزنوي ثم اللاهوري كان من الرجال المعروفين بالعلم والمعرفة، أخذ عن الشيخ أبي الفضل محمد بن الحسن الختلي وصحبه مدة من الزمان، ثم ساح معظم المعمورة وحج وزار، ولازم الشيخ أبا العباس أحمد بن محمد الأشقاني وأخذ عن بعض العلوم وأخذ عن الشيخ أبي القاسم عبد الكريم بن هوازن القشيري والشيخ أبي سعيد ابن أبي الخير المهنوي وأبي علي الفضل بن محمد الفارمدي وخلق آخرون من العلماء والمحدثين ولازمهم مدة ثم قدم الهند وسكن بمدينة لاهور. ومن مصنفاته كشف المحجوب وهو من الكتب المعتبرة المشهورة عند أهل العلم والمعرفة، جمع فيه كيراً من لطائف التصوف وحقائقه، ذكره الشيخ عبد الرحمن الجامي في نفحات الأنس وأثنى على علمه ومعرفته. مات لعشر بقين من ربيع الثاني سنة خمس وستين وأربعمائة بمدينة لاهور فدفن بها، وقبره ظاهر مشهور."
(الإعلام بمن في تاريخ الهند من الأعلام، الطبقة الخامسة في أعيان القرن الخامس من أهل الهند، (1 / 69) ، ط: دار ابن حزم - بيروت، لبنان)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144412100394
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن