بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کاش اللہ نے شراب حلال کی ہوتی سے ارتداد لازم آۓ گا یا نہیں؟


سوال

ہندہ سے متعدد کلمات کفری صادر ہوئے مثلا :

الف۔کاش حضرت آدم علیہ السلام نے وہ پھل نہ کھایا ہوتا تو ہم جنت میں ہوتے۔

ب۔کسی انسان کو اپنی طرف آتا دیکھ کر مذاقا کہا کہ یہ ملک الموت میری طرف آ رہے ہیں(معاذاللہ)،

ج۔کاش اللہ نے شراب حلال کی ہوتی(معاذاللہ)

  اس کے علاوہ بھی دو چار کفریہ کلمات ہندہ سے صادرہوۓ ،ہندہ سے کلمات کفر صادر ہوئے لیکن ان میں سے ایک بھی اس نے جان کر کے نہیں بولا تھا ،بلکہ اس کو پتا بھی نہیں تھا کہ اس سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے! جب اس کو پتا چلا کہ ایسے کلمات بولنے سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، تو اس نے ان الفاظ سے توبہ کہ اے اللہ میرے سے جانے انجانے میں جتنے کفریات صادر ہوئے ،میں ان تمام سے توبہ کرتی ہوں، اور وعدہ کرتی ہوں آئندہ احتیاط کروگی، میں اللہ کو ایک مانتی ہوں، اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتی ہوں، اور جتنے بھی ضروریات دین ہیں ،ان تمام پر ایمان لاتی ہوں ،اور دین اسلام کے علاوہ تمام مذاہب سے نفرت کرتی ہوں ،پھر کلمہ شہادت پڑھ لیا تو کیا ایسے توبہ کرنے سے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئی؟

2)اصل میں ہندہ نے سنا ہے کہ جو کلمات کفر صادر ہوئے ہوں ،ان کا توبہ میں تذکرہ کرنا لازمی ہے، ورنہ توبہ قبول نہیں ہوتی، اس وجہ سے وہ بہت پریشان ہے ،کہ توبہ میں ان پانچ چھ کلمات کفر کا تذکرہ کر کے کیسے توبہ کرے ؟یا جس طریقہ پر اس نے توبہ کی ہے وہ صحیح ہے؟ اور اس سے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئی یا اس کو کن الفاظ سے توبہ کرنی چاہئے؟

3)یا پھر ہندہ کو ان الفاظ سے توبہ کرنی چاہئے کہ اے اللہ میرے سے جانے انجانے میں جتنے کفریات صادر ہوئے ،میں ان تمام سے توبہ کرتی ہوں اور وعدہ کرتی ہوں آئندہ احتیاط کروگی، میں اللہ کو ایک مانتی ہوں، اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتی ہوں، اور جتنے بھی ضروریات دین ہیں ،ان تمام پر ایمان لاتی ہوں ،اور دین اسلام کے علاوہ تمام مذاہب سے نفرت کرتی ہوں، میرے سے جو جانے انجانے میں انبیاء،صحابہ،قران پاک یا ضروریات دین میں سے کسی کی بھی گستاخی ہو گئی ہو، تو میرے اللہ! میں سچے دل سے توبہ کرتی ہوں، میں نے جو کسی انسان کو اپنی طرف آتا دیکھ کر مذاقا کہا کہ یہ ملک الموت میری طرف آ رہے ہیں، میں اپنے اس جملے سے توبہ کرتی ہوں اور جو یہ کہا :کہ کاش اللہ نے شراب حلال کی ہوتی! اس سے بھی توبہ کرتی ہوں ،اور جو یہ کہا تھا کہ، کاش !حضرت آدم علیہ السلام نے وہ پھل نہ کھایا ہوتا، تو ہم جنت میں ہوتے، میں ان تمام کفریات سے توبہ کرتی ہوں اور میرا دل دین اسلام پر بالکل مطمئن ہے۔تو مفتی صاحب ان دونوں طریقوں میں کونسا توبہ کا صحیح طریقہ ہے؟

4)ہندہ نے توبہ تو کر لی ہے، لیکن اس کو یقین نہیں ہو رہا کہ اس کی توبہ قبول ہوئی ہے یا نہیں، جس کی وجہ سے اس کے دل میں خیال آتا ہے کہ پتا نہیں وہ کافر ہے یا مسلمان؟ اور یہ بات سوچنا تو خود کفر ہے! تو اس صورت میں وہ کیا کرے ؟وہ بہت پریشان ہے؟

5)کیا صرف دل میں خیال آنے سے کہ پتا نہیں میں کافر ہوں یا مسلمان اس سے بھی بندہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے یا نہیں؟نیز کیا تجدید ایمان کی لئے غسل یا وضو کرنا ضروری ہے؟اور اگر تجدید ایمان کے بعد ماضی میں کہا ہوا کوئی کفریہ کلمہ یاد آئے تو کیا دوبارہ تجدید ایمان کرنا ہو گا؟ 

جواب

واضح رہے  کہ دینِ  اسلام کے بارے میں گفتگو کرتے ہوۓ انسان کو محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے، مبادا زبان سے کوئی ایسا لفظ نکل جاۓ ، جو اللہ کی ناراضگی کا سبب ہو، یا اس لفظ سے انسان اسلام جیسی نعمت ہی سے  محروم ہوجاۓ،اگر خدانخواستہ کبھی کوئی ایسا لفظ نکل جاۓ ، تو اس پر فورا سچے  دل سے توبہ اور استغفار کر لینا چاہیے، اور اگر اس کلمہ میں کفر کا پہلو ہو تو تجدید ایمان و تجدید نکاح (شادی شدہ ہونے کی صورت میں) ضروری ہے، اور سچے دل سے توبہ کرنے  اور تجدید ایمان کے بعد آئندہ ایسے کلمات سے بچتے ہوۓ ،اللہ تعالی کی رحمت سے پر امید رہنا چاہئے، بسا اوقات شیطان توبہ کے بعد بھی گناہ کو یاد دلاتا رہتا ہے، تاکہ انسان پریشان ہوکر مایوسی کی کیفیت میں چلاجاۓ، اس لیے سابقہ گناہ اگر یاد آجاۓ تو انسان توبہ و استغفار کرلے، لیکن مایوس نہ ہو۔لہذا صورت مسئولہ میں ہندہ نے جو کلمات کہےاور اب اس پر نادم ہے،اور تجدید ایمان بھی کرچکی ہے،تو اب اللہ تعالی کی رحمت سے اچھی امید رکھے، اور مایوس نہ ہو، باقی ہندہ کے  جو الفاظ سائل نے نقل کیے  ہیں ان سے کفر لازم نہیں آتا، البتہ اس قسم کے کلمات سے اجتناب ضروری ہے۔

2/3۔تجدید ایمان کا طریقہ یہ ہے کہ زبان  سےاسلام کااقرار کرے (یعنی کلمہ شہادت  پڑھے)اور دل سے اس کی تصدیق کرے،اوراگر کوئی کفریہ کلمہ کہا ہے تو اس سے توبہ کرے ،نیز  توبہ میں کفریہ الفاظ  اور كلمات کو  دوہرانا ضروری نہیں ہے ،ایسے تمام کلمات سے  برات  اور بیزاری کا اظہار کرنا کافی ہے۔

4۔  توبہ کرنے کے بعد دل میں آنے والے خیالات اور وسوسہ کی طرف توجہ اور دھیان  ہی نہ دے ، اس کی طرف توجہ ہی نہ کرے اور لوگوں کو بھی نہ بتائےاور نہ ہی پریشان ہو،بلکہ اپنے آپ کو فوراً کسی کام میں مشغول کرلےیا  ذکر  اللہ کا اہتمام کرے  مثلاً" اٰمَنْتُ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِه " ،" ‌لَا ‌حَوْلَ ‌وَلَا ‌قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ"، "هُوَ ‌الْأَوَّلُ ‌وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ، وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ "اور استغفار کے پڑھنے کا اہتمام کرے۔

5۔ تجدید ایمان کے لیے وضو اور غسل کرنا لازم نہیں ہے، نیز کفریہ کلمات کے یاد آنے پر تجدید ایمان لازم نہیں ہے۔

مجمع الانہر میں ہے:

"هو في اللغة الراجع مطلقا وفي الشرع هو الراجع عن دين الإسلام وركن الردة إجراء كلمة الكفر على اللسان بعد الإيمان وشرائط صحتها العقل والطوع."

(باب المرتد، 601/1، ط:دار إحياء التراث العربي)

مجمع الانہر میں ہے: 

"(ثم إن ألفاظ الكفر أنواع) (الأول فيما يتعلق بالله تعالى) إذا وصف الله تعالى بما لا يليق به أو سخر باسم من أسمائه أو بأمر من أوامره أو أنكر صفة من صفات الله تعالى أو أنكر وعده أو وعيده أو جعل له شريكا أو ولدا أو زوجة أو نسبه إلى الجهل أو العجز أو النقص أو أطلق على المخلوق من الأسماء المختصة بالخالق نحو القدوس والقيوم والرحمن وغيرها يكفر ويكفر بقوله لو أمرني الله تعالى بكذا لم أفعل.......(الثاني في الأنبياء) - عليهم الصلاة والسلام - وفي البزازية يجب الإيمان بالأنبياء بعد معرفة معنى النبي وهو المخبر عن الله تعالى بأوامره ونواهيه وتصديقه بكل ما أخبر عن الله تعالى وأما الإيمان بسيدنا محمد عليه الصلاة والسلام فيجب بأنه رسولنا في الحال وخاتم الأنبياء والرسل فإذا آمن بأنه رسول ولم يؤمن بأنه خاتم الأنبياء لا يكون مؤمنا وفي فصول العمادي من لم يقر ببعض الأنبياء بشيء أو لم يرض بسنة من سنن المرسلين عليهم السلام فقد كفر.......(الثالث في القرآن والأذكار والصلاة ونحوها) إذا أنكر آية من القرآن واستخف بالقرآن أو بالمسجد أوبنحوه مما يعظم في الشرع أو عاب شيئا من القرآن أو خطئ أو سخر بآية منه كفر إلا المعوذتين ففي إنكارهما اختلاف والصحيح كفره وقيل إن كان عاميا يكفر وإن كان عالما لا لكن ذهب بعض الفقهاء إلى عدم إيجاب الكفر ويكفر باعتقاد أن القرآن مخلوق حقيقة وكذا بخلق الإيمان ويجب إكفار الذين يقولون إن القرآن جسم إذا كتب وعرض إذا قرئ."

(باب المرتد،‌‌ألفاظ الكفر أنواع،290،293/1، ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامی ميں ہے:

"(قوله لا يفتى بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن) ظاهره أنه لا يفتى به من حيث استحقاقه للقتل ولا من حيث الحكم ببينونة زوجته. وقد يقال: المراد الأول فقط، لأن تأويل كلامه للتباعد عن قتل المسلم بأن يكون قصد ذلك التأويل، وهذا لا ينافي معاملته بظاهر كلامه فيما هو حق العبد وهو طلاق الزوجة وملكها لنفسها، بدليل ما صرحوا به من أنهم إذا أراد أن يتكلم بكلمة مباحة فجرى على لسانه كلمة الكفر خطأ بلا قصد لا يصدقه القاضي وإن كان لا يكفر فيما بينه وبين ربه تعالى، فتأمل ذلك وحرره نقلا فإني لم أر التصريح به، نعم سيذكر الشارح أن ما يكون كفرا اتفاقا يبطل العمل والنكاح، وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح وظاهره أنه أمر احتياط."

(كتاب الجهاد، باب المرتد،4 /229، ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے :

"(وإسلامه أن يتبرأ عن الأديان) سوى الإسلام (أو عما انتقل إليه) بعد نطقه بالشهادتين، وتمامه في الفتح؛ ولو أتى بهما على وجه العادة لم ينفعه ما لم يتبرأ بزازية."

(کتاب الجہاد ،باب المرتد،226/4ط سعید)

درر الحكام شرح غرر الأحكام میں ہے:

"(قوله: فإن تاب بالتبري . . . إلخ) أي مع إتيانه بالشهادتين سئل أبي يوسف كيف يسلم فقال يقول أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله ويقر بما جاء من عند الله ويتبرأ من الذي انتحله، كذا في البحر عن شرح الطحاوي وصرح في العناية بأن التبري بعد الإتيان بالشهادتين."

(باب المرتد، 301/1، ط:دار إحياء الكتب العربية)

سنن ابو داؤد میں ہے:

"وحدثنا أبو زميل، قال: سألت ابن عباس فقلت: ما شيء أجده في صدري؟ قال: ما هو؟ قلت: ‌والله ‌ما ‌أتكلم ‌به، ‌قال: ‌فقال ‌لي: «‌أشيء ‌من ‌شك؟» قال: وضحك، قال: «ما نجا من ذلك أحد»، قال: حتى أنزل الله عز وجل {فإن كنت في شك مما أنزلنا إليك فاسأل الذين يقرءون الكتاب من قبلك} الآية، قال: فقال لي: «إذا وجدت في نفسك شيئا فقل» {هو الأول والآخر والظاهر والباطن وهو بكل شيء عليم} [الحديد: 3]."

(‌‌أبواب النوم،باب في رد الوسوسة،329/4۔ ط:المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

ترجمہ:"ابوزمیل کہتے ہیں میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: میرے دل میں کیسی کھٹک ہو رہی ہے؟ انہوں نے کہا: کیا ہوا؟ میں نے کہا: قسم اللہ کی! میں اس کے متعلق کچھ نہ کہوں گا، تو انہوں نے مجھ سے کہا: کیا کوئی شک کی چیز ہے، یہ کہہ کر ہنسے اور بولے: اس سے تو کوئی نہیں بچا ہے، یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی  «فإن كنت في شك مما أنزلنا إليك فاسأل الذين يقرءون الكتاب» ”اگر تجھے اس کلام میں شک ہے جو ہم نے تجھ پر اتارا ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لے جو تم سے پہلے اتاری ہوئی کتاب (توراۃ و انجیل) پڑھتے ہیں“ (یونس: ۹۴)، پھر انہوں نے مجھ سے کہا: جب تم اپنے دل میں اس قسم کا وسوسہ پاؤ تو «هو الأول والآخر والظاهر والباطن وهو بكل شىء عليم» ”وہی اول ہے اور وہی آخر وہی ظاہر ہے اور وہی باطن اور وہ ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے۔ (الحدید: ۳)، پڑھ لیا کرو۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102511

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں