بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض پر نفع لینا سود ہے، زمین کو محل ِ وقوع متعین ہونے سے پہلے منافع کے ساتھ فروخت کرنا جائز نہیں


سوال

میرے دفتر کے ایک صاحب جو اکاؤنٹ آفیسر رہے ہیں، سرکار ان ملازمین کو جن کی سروس زیادہ ہوتی اور ریٹائر منٹ کے قریب ہوتے، کم قیمت پر زمین دیتی تھی، میرے آفیسر کا  کام یہ تھا کہ وہ ان ملازمین کی طرف سے رقم جمع کرواکر اور ان کو راضی کرکے زمین دلانے کا کام کرتے تھے، اور ان سے تحریری معاہدہ کرلیتے تھے، زمین ملنے کی صورت میں جو ضرور ملنے تھی ، کچھ رقم پیشگی اور بعد میں بقیہ رقم جو طے کرتے تھے ، دلاتے تھے، یہ ایک باقاعدہ ان کا اور کچھ لوگوں کا طریقہ کار تھا، جو اس کام میں ملوث تھے،  بعد میں یہ لوگ  اس زمین کو زیادہ قیمت پر فروخت کرکے منافع آپس میں تقسیم کرتے تھے ، اور جس ملازم کو زمین ملنی  ہوتی تھی ، اس کو معاہدے کے تحت کم رقم دیتے تھے اور وہ ملازم اس بات کا پابند ہوتا تھا کہ یہ لوگ جس کو وہ زمین فروخت کریں ، وہ ملازم کورٹ میں کھڑے ہوکر  اس خریدا ر کے نام ٹرانسفر کرائے گا  ، اور منافع میں سے  کوئی رقم نہیں مانگے گا۔ میرے آفیسر بھی اس کام میں شامل تھے۔ 

2015ء میں میرا ریٹائرمنٹ تھا اور 37 سالہ سروس اور عہدے کی مناسبت سے فیڈرل گورنمنٹ امپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈین کی طرف سے مجھے اسلام آباد میں سیکٹر f-14/ f-15 میں زمین لازمی ملنی تھی ، میں خود درخواست جمع کروا رہا تھا اور ممبر شپ کے لیے میرے پاس رقم موجود تھی اور میں رقم جمع کروارہاتھا ، لیکن اسی دوران بہاولپور ڈی ایچ اے میں عام لوگوں کی قرعہ اندازی کے ذریعے زمین الاٹمنٹ کرنے کا اعلان ہوا ، ہمارے آفیسر نے دونوں جگہ میرے نام کی زمین جو اسلام آباد میں فیڈرل گورنمنٹ کی طرف سے ملنی تھی،  اس میں  اور بہاول پور ڈی ایچ اے میں بھی دونوں جگہ درخواست جمع کرائی اور ممبر شپ کی فیس بھی انہوں نے ادا کی ۔

میرے آفیسر نے فیڈرل گورنمنٹ  کی طرف سے میری زمین کے لیے درخواست 14/9 کو  میرے افسران بالا سے عہدے کی تصدیق کرواکر جمع کرائی اور فیس بھی جمع کروائی اور رسید اپنے پاس رکھ لی۔

اب ہوا یوں کہ بہاول پور ڈی ایچ اے سے یکم جنوری کو ایک مراسلہ جاری ہوا، جس میں مجھے دو سو پچاس گز یا دس مرلہ زمین کی الاٹمنٹ کی رضامندی کی اطلاع دی گئی اور دو لاکھ ستاون ہزار اسی روپے جمع کروانے کو کہا گیا ، لیکن میرے آفیسر نے حسبِ وعدہ رقم جمع نہیں کروائی اور معاملے سے مکر گئے۔

25 جنوری یعنی چھ ماہ بعد فیڈرل گورنمٹ نے میرے نام لیٹر جاری کیا ، جس میں زمین کی الاٹمنٹ کی منظوری کی اطلاع دی گئی اور اکیس دن کے اندر 10 لاکھ روپے جمع کروانے کی ہدایت کی گئی ، یہ رقم بھی میرے آفیسر جمع نہیں کروائی ۔

جولائی 2021ء کو اچانک  خبر آئی کہ اگست میں  اسلام آباد f-14/f-15 سیکٹر کی زمین کی قرعہ اندازی ہے ، لیکن اس میں صرف وہی لوگ شامل ہوں گے،  جنہوں نے دس لاکھ کی قسط جمع کرائی ہوگی ، اب ممبر شپ اور پہلی رسید میرے پاس نہیں تھی ، آفیسر نے اپنے پاس رکھی تھی،  اس وجہ سے میری طرف سے  دوسری قسط جمع نہیں کروائی جا سکی ، اس دوران ایک پارٹی نے  مجھ سے رابطہ کیا اور ممبر شپ کی رقم 50000 اور دس لاکھ کی جو جمع کروانی تھی ، وہ ادا کرنے اور مزید منافع دینے کا معاہدہ کرنے کو کہا ، جس میں یہ طے ہوا کہ ایڈوانس میں اتنی رقم دے رہے ہیں اور آپ کی زمین کے کاغذات ہم لے رہے ہیں اور بقیہ قسطیں قانونی معاملات ہم خود دیکھیں گے ، ہم جس کو زمین فروخت کریں ، اس میں آپ کا کوئی اختیار نہیں ہوگا، ان کے ساتھ میرا معاملہ طے ہوگیا۔اب زمین میرے نام نکل چکی ہے، اورمیں  حسبِ معاہدہ زمین ان کو دینے کا پابند ہوں۔

اب میرے آفیسر نے جتنی رقم جمع کروائی تھی، وہ میں ان کو دے چکا ہوں اور مزید دس لاکھ منافع کے طور پر دینے کو تیار ہوں ، لیکن وہ اس پر تیار نہیں ہیں اور منافع میں آدھا حصہ مانگ رہے ہیں،حالانکہ میرا ان سے کوئی معاہدہ نہیں  ہوا تھا۔

سوال یہ ہے کہ :

اب مجھے آفیسر کو کتنی رقم ادا کرنی ہے؟ اور کس طریقے سے ادا کروں ؟ میری راہ نمائی کی جائے تاکہ آخرت میں کسی قسم کی پکڑ نہ ہو۔

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کا بیان واقعۃً صحیح اور درست ہے کہ سائل نے مذکورہ آفیسر صاحب سے کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں کیا  تھا، بلکہ سائل اپنی  ممبرشپ فارم کی فیس  خود جمع کروانا چاہتا تھا ،  لیکن آفیسر صاحب نے سائل  کو کہا کہ :"آپ فیس   جمع نہ کروائیں  ، میں جمع کرواتا ہوں اور آفیسر صاحب نے ممبر شپ کی فیس اور اس کے بعد دس لاکھ روپے  کی ایک قسط جمع کروائی اور اس کے بعد بقیہ قسطیں  جمع نہیں کروائیں ،  پھر وہ  اپنے وعدہ سے   مکر گئے ، اور  سائل نے کسی دوسرے فریق سے معاہدہ کیا اور انہوں نے بقیہ قسطیں ادا کیں تو جتنی رقم آفیسر صاحب نے سائل کی طرف سے جمع کروائی تھی ، اگر انہوں نے یہ رقم سائل کی طرف سے بطورِ قرض جمع کروائی تھی تو وہ   رقم سائل پر قرض ہو گئی تھی اور سائل پر و ہی رقم لوٹانا لازم تھا ، اب جب سائل اتنی رقم اپنے دوست  آفیسر صاحب کو واپس کر چکا ہے تو  آفیسر صاحب  کے لیے  سائل سے مزید رقم یا زمین کے منافع کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔

2۔ سائل کے لیے ملنے والی  زمین کو اپنے  قبضہ میں لینے  سے پہلے صرف فائل یا کاغذات کی بنیاد پر  نفع کے ساتھ فروخت کرنا جائز نہیں، جب کہ زمین کا محلِ وقوع متعین نہ ہو ، البتہ جتنے پیسے سائل نے سرکار کو جمع کروائے ہیں اتنی ہی رقم  میں فروخت کرنا جائز ہے ، لیکن اگر سائل کو الاٹ ہونے والی زمین کا محل ِ وقوع متعین ہوجائے تو  پھر سائل کے لیے اس کو  نفع کے ساتھ فروخت کرنا بھی جائز ہوگا۔

درر الحكام شرح غرر الأحكام میںہے:

"أن الديون تقضى بأمثالها۔"

(الكتاب الرابع عشر الدعوى، (المادة 1613) الدعوى هي طلب أحد حقه من آخر في حضور القاضي: 2 /261،ط: دار إحياء الكتب العربية)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"الديون تقضى بأمثالها۔"

(كتاب الدعوى: 7/ 191، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی  شامی میں ہے:

"فإن الديون تقضى بأمثالها فيثبت للمديون بذمة الدائن مثل ما للدائن بذمته فيلتقيان قصاصًا."

(كتاب الرهن، ‌‌فصل في مسائل متفرقة: 6/ 525، ط: سعید)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100556

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں