بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض پر نفع لینا سود ہے


سوال

میں نے ایک ٹھیکے دار کے ساتھ چھ لاکھ روپے انویسمنٹ کیے ہیں ، اس کا کام یہ ہے کہ کمپنی اس کو بہت سارے  کپڑے  دیتی ہے تا کہ وہ کپڑے کمپنی کو   پیس کی صورت میں بنا کر دے،  اس کا کہنا ہے کہ کمپنی مجھے رقم ایک مہینے کے بعد ادا کرتی ہے، اس دوران مجھے ورکروں کو مزدوری ، پیس بنانے کے لیے دھاگہ اور مشینوں کے پارٹ اور دیگر اشیاء کی ضرورتہوتی ہے تو  آپ کے   پیسوں  کے ساتھ  ساڑھے پانچ لاکھ روپے اپنے ملاکر   اس مجموعی  رقم سے ان تمام ضروریات کو پورا کروں گا اور ہم نے طے کیا ہے کہ  اخراجات کو منہا کرنے کے بعد  نفع میں سے پندرہ فیصد میں لوں گا اورپچاسی فیصدٹھیکےدارلے گااور اگر نقصان ہو جاتا ہے تو اس کو بھی نفع سے منہا کیا جائے گا۔معلوم یہ کرنا ہے کہ  میرے لیے یہ نفع لینا جائز ہے یا نہیں؟اگر نہیں تو اس کے جواز کی  کیا صورت ہوگی؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں سائل نے مذکورہ ٹھیکے دار کے ساتھ جو  معاہدہ کیا ہے ، وہ   نہ شرکت ہے  نہ مضاربت ،  ایسا معاہدہ کرنا شرعا جائز نہیں اور  سائل کی رقم  ٹھیکے دار کے پاس قرض ہے اور قرض پر نفع لینا شرعاً سود ہے ؛لہذا سائل کے لیے ٹھیکے دار سے نفع لینا  ناجائز اور حرام ہے۔

اس کے جواز کی صورت یہ ہوگی کہ سائل ٹھیکے دار کے ساتھ یوں معاہدہ کرلے کہ :"ہم دونوں مل کر کمپنی سے کام لیں گے اور جو نفع ہو گا ، وہ آپس میں تقسیم کریں گے ، فیصد کے اعتبار سے نفع متعین کر لیں ، پھر   جو نفع ہوگا ، دونوں میں حسب ِ معاہدہ تقسیم ہو گا۔

السنن الكبري للبيہقی ميں ہے:

"عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا" موقوف۔"

(كتاب البيوع ، باب كل قرض جر منفعة فهو ربا : 573/5 ، رقم : 10933، ط : دارالکتب العلمیۃ)

 فتاوی عالمگیری میں ہے :

"(وأما شركة الأعمال) فهي كالخياطين والصباغين، أو أحدهما خياط والآخر صباغ أو إسكاف يشتركان من غير مال على أن يتقبلا الأعمال فيكون الكسب بينهما فيجوز ذلك، كذا في المضمرات.

وحكم هذه الشركة أن يصير كل واحد منهما وكيلا عن صاحبه في تقبل الأعمال، والتوكيل بتقبل الأعمال جائز كان الوكيل يحسن مباشرة العمل أو لا يحسن، كذا في الظهيرية۔"

(کتاب الشرکة ، الباب الرابع في شركة الوجوه وشركة الأعمال ، شرکة الأعمال : 2 / 328 ، ط : رشیدیہ)

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے :

ومما يتصل بهذا الفصل فصل التوابع

"والأصل فيه: أن الإجارة إذا وقعت على عمل فكل ما كان من توابع ذلك العمل ولم يشترط ذلك في الإجارة على الأجير، فالمرجع فيه العرف. حتى قال في «الكتاب» : من استأجر رجلاً ليضرب له لبناً فالزنبيل والملبن على اللبان إن جرت العادة، وكذلك في الدقيق الذي يصلح الحائك الثوب يعتبر العرف والسلك الذي يخاط به الثوب والإبرة على الخياط، باعتبار العرف وإخراج الخبز من التنور على الخباز بحكم العرف وكذلك الطباخ إذا استؤجر في عرس، فإخراج المرقة من القدور إلى القصاع على الطباخ، وإن استؤجر لطبخ قدر خاص فإخراج المرقة من القدر ليس عليه۔"

(كتاب الإجارات ، ‌‌الفصل السادس عشر: فيما يجبُ على المستأجر وفيما يجب على الأجير : 7 / 494 ط : دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100417

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں