بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض معاف کرنے کے بعد دوبارہ مطالبہ کرسکتا ہے یا نہیں؟


سوال

چند عرصہ پہلے میں نے فریق اول کے ساتھ کاروبار کیا، اور ہمارے درمیان ایک آدمی ضامن بن گیا، یعنی وہ خود ضامن بنا کہ اگر فرق اول چیک (مال کی خریداری) کا چیک یا رقم  نہ دے گا، تو وہ ذمہ دار بن گیا، فریق اول اچانک غائب ہو گیا، اس کے ذمہ میرے تقریباً 50 لاکھ تک چیک وغیرہ واجب الاداء تھے، میں نے ضامن سے رابطہ کیا، اس نے ٹال مٹول کا طریقہ شروع کیا، لیکن آخر کار بڑی مشکل سے فریق اول کا اس ضامن کے پاس ایک پلاٹ تھا، اس کی قیمت 12 سے 16 لاکھ میں وہ پلاٹ سیل ہوا، اور رقم ادا کی، اب میرے فریق اول کے ذمہ 32 لاکھ روپے واجب الاداء تھے، پھر کسی طرح فریق اول سے رابطہ ممکن ہوا، تو وہ دو تین بندوں کے ساتھ آیا، اور مجھے ہر طرح سے (زبانی طور پر) پابند کر کے مجھ سے کہا 17 لاکھ روپے معاف کرو ورنہ کچھ بھی نہیں ملے گا،  میں نے ان کو کہا کہ آپ لوگ جو فیصلہ مناسب سمجھ کر کرلیں تو وہ مجھے قبول ہے، اور باقی (دو تین بندوں نے اپنے ذمہ لے کر کہا کہ ہم) ادا کریں گے، تو میں نے ان کے چیک واپس کر دئیے، پھر وہ فریق اول ان چار پانچ سالوں میں کاروبار کر کے مالدار ہوگیا، تو میں نے اس سے کہا کہ اب تم مالدار ہوگئے، اس لیے 17 لاکھ روپے جو تم نے زبردستی معاف کروائے تھے، (میں نے دلی رضامندی سے معاف نہیں کیے تھے) وہ مجھے واپس دو، اب وہ کہہ رہا ہے کہ تین شرطیں ہیں:

(1) ضامن سے وصول کرو چیک اس کو دئیے تھے، (2) قسم اٹھاؤ، (3) میری قبر سے لو۔

اب پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ:

1۔ کیا مذکورہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے بتائیں کہ کیا میں زبردستی معاف کرنے کے بعد اپنے پیسے 17 لاکھ واپس لے سکتا ہوں؟

2۔ اگر لے سکتا ہوں تو اس کا کیا طریقہ ہونا چاہیے؟

3۔ کیا میں حلف اٹھاؤں یا نہیں؟ یعنی وہ کہہ رہاہے کہ اس بات پر قسم اٹھاؤ کہ پیسے معاف نہیں کیے، اگر حلف نہ اٹھاؤں تو کیا سخت رویہ اپنا سکتا ہوں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے وہ مذکورہ 17 لاکھ قرضہ کی رقم معاف کردی تھی، (اگرچہ انہوں نے یہ کہہ کرمعاف کروایاتھا کہ  17 لاکھ روپے معاف کرو ورنہ کچھ بھی نہیں ملے گا) تو وہ رقم معاف کرنے سے معاف ہوگئی تھی، اب سائل  کے لیے دوبارہ اس رقم کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے۔

الفقہ الإسلامی وأدلتہ للزحيلی میں ہے:

"يصح ‌إبراء ‌الدين الثابت في الذمة... ويعد الإبراء من الدين تبرعا؛ لأن فيه معنى التمليك، وإن كان في صورة إسقاط."

(‌‌الفصل الرابع عشر: الإبراء، ‌‌المبحث الأول ـ تعريف الإبراء ومشروعيته، ج: 6، ص: 4370، ط: دار الفكر - سوريَّة - دمشق)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) الدين الصحيح (هو ما لا يسقط إلا بالأداء أو الإبراء) ولو حكما بفعل يلزمه سقوط الدين."

(‌‌كتاب الكفالة، ج: 5، ص: 302، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"هبة الدين ممن عليه الدين جائزة قياسا واستحسانا...  هبة الدين ممن عليه الدين وإبراءه يتم من غير قبول من المديون ويرتد برده ذكره عامة المشايخ رحمهم الله تعالى، وهو المختار، كذا في جواهر الأخلاطي."

(كتاب الهبة، الباب الرابع في هبة الدين ممن عليه، ج: 4، ص: 384، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100149

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں