بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض کی ایک صورت کا حکم


سوال

زید نے بکر سے اپنے کاروبار کے لیے رقم لی ، زید ایک جنرل اسٹور چلاتا ہے مال کم تھا تو زید نے بکر سے مختلف اوقات میں پانچ لاکھ روپے لیے اوردونوں کے درمیاں یہ طے ہو اکہ زید بکر کو ایک لاکھ روپے کے بدلہ ہر ماہ تین سے چار ہزار روپے دے گا ، شرح فی صد کے اعتبار سے نفع طے نہیں ہوا ، اور نقصان کے بارے  میں صرف یہ کہا کہ بکر نقصان میں بھی شریک ہوگا ۔

جب کہ زید نے باقاعدہ طور پر نہ نفع کا حساب کیا اور نہ ہی نقصان کاحساب کیا ، بس ایک سال تک اندازہ سے پندرہ سے 18 ہزار روپے بکر کو دیتا رہا ۔

سوال یہ ہے کہ آیا یہ کاروباری معاملہ شمار ہوگا ، یعنی شراکت فاسدہ کہیں گے یا قرض کا حکم ہوگا؟جب کہ زید بکر کو تا حال  تقریباًدو لاکھ سترہزار روپے دے چکا ہے ، اب دونوں کے درمیاں معاملہ ختم ہوچکاہے تو کیا نفع میں دی گئی رقم کو اصل میں شمار کرکے باقی ماندہ رقم بکر کو دی جائے یا پورے پانچ لاکھ روپے مزید بکر کو دئے جائیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں زیرنظر استفتاء میں زید اور بکر کے درمیاں مذکورہ معاملہ کی جو صورت بیان کی گئی ہے تو شرعی اعتبار سے دونوں کے درمیاں ہونے والا یہ معاملہ شراکت داری کا نہیں ہے ، اس لیے کہ شراکت داری کے معاملہ میں دونوں شرکاء اپنااپنا سرمایہ لگاتے ہیں ، یعنی ہر ایک شریک (پارٹنر ) اپنی اپنی رقم شامل کرکے کاروباری مال خریدتے ہیں ، جب کہ اس معاملہ میں دکان میں زید کا مال عین(شئ) کی صورت میں پہلے ہی سے موجود تھا ، نیز شراکت درای کا معاملہ ہو یا مضاربت کا معاملہ ہو نفع کا تعین شرح فیصد یا حصوں کے اعتبار سے کرنا ضروری ہے جب کہ اس معاملہ میں ہر ایک کےلیے نفع کا تعین ایک غیر معین رقم کی صورت میں ہوا جو کہ شرعانا  جائز صورت تھی ۔الغرض دونوں کے درمیاں یہ ایک سودی معاملہ ہو اہے ، کاروباری شرعی شراکت داری یا مضاربت کا معاملہ نہیں ہو ا، دونوں پر لازم ہے کہ اس غیر شرعی معاملہ پر تو بہ و استغفار کریں ، اور اس معاملہ کی شرعی حیثت قرض کی رہی، بکر صرف اپنی اصل رقم (پانچ لاکھ روپے ) کا حق دار ہے ، زید نے بکر کو نفع کی مد میں اب تک جتنی رقم دی ہے وہ اصل رقم میں سے منہا کی جائے گی ، لہذا بکر صرف باقی ماندہ رقم کا حق دار ہے ، اس سے زائد رقم لے گا تو وہ سود ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) : أن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة، لا معينا، فإن عينا عشرة، أو مائة، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لا يحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلا يتحقق الشركة في الربح."

(کتاب الشرکة ،فصل فی بیان شرائط جوازأنواع الشرکة ج:6 ص:59 ط:دار الكتب العلمية)

وفیہ ایضا:

"(أما) الشركة بالأموال فلها شروط: (منها) أن يكون رأس المال من الأثمان المطلقة وهي التي لا تتعين بالتعيين في المفاوضات على كل حال، وهي الدراهم والدنانير، عنانا كانت الشركة أو مفاوضة عند عامة العلماء، فلا تصح الشركة في العروض."

(کتاب الشرکة ، فصل فی بیان شرائط جوازأنواع الشرکة ج:6 ص:59 ط: دار الكتب العلمية)

وفیہ ایضا:

"فتعين أن يكون الواجب فيه رد المثل ..... (وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة على أن يرد عليه صحاحا أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه «نهى عن قرض جر نفعا»؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا وعن شبهة الربا واجب، هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض."

 (كتاب القرض، فصل في شرائط ركن القرض ج:7 ص:395 ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508100870

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں