عید الاضحی کے موقع پر ایک شخص نے دوسرے آدمی کو 15لاکھ ادھار کے طور پر دیا ہے اور اس آدمی نے بھینسوں کا کاروبار کیا اور آٹھ ماہ گزرنے پر اس نے رقم واپس نہیں کی ،جب قرض دینے والا رقم واپس لینے کے لیے گیا تو اس نے کہا آئندہ عید الاضحی کے موقع پر ادا کروں گا اب اس سے قرض دینے والے نے روزانہ کی بنیاد پرپانچ کلو دودھ لینا شروع کیا ہے اور اس دودھ کی قیمت ادا نہیں کرے گا بلکہ اپنے پیسوں کے منافع کے طور پر لے گا،تو اس طرح روزانہ کی بنیاد پر پانچ کلو دودھ لینا جائز ہے اگر جائز نہیں ہے تو جواز کی کوئی دوسری صورت بن سکتی ہے ؟
صورت مسؤلہ میں قرض دینے والے کا روزانہ کی بنیاد پرقرض لینے والے سے بغیر قیمت کےپانچ کلو دودھ لینا شرعاً ناجائز ہے، کیونکہ یہ قرض پرنفع وصول کرنے کی وجہ سے سود ہے جو کہ نا جائز اور حرام ہے،مفت دودھ لینے کے جواز کی کوئی صورت نہیں ، جائز صورت یہ ہے کہ صرف اپنی اصل رقم وصول کرے،تاخیراورٹال مٹول کی صورت میں عدالتی چارہ جوئی کااختیار رکھتا ہے۔
حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
"عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا".
(السنن الكبرى للبیھقي،باب كل قرض جر منفعة فهو ربا»(5/ 573) برقم (10933)، ط. دار الكتب العلمية)
فتاوی ٰشامی میں ہے:
"( كلّ قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر".
(کتاب البیوع، فصل فی القرض ،مطلب كل قرض جر نفعا حرام (5/ 166)،ط. سعيد،كراچی)
فقظ واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144409100875
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن