بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروبار میں جب اصل کو نفع نہیں ہوا توشریک کو بھی نفع کا مستحق نہ ہونے کاحکم اوربائع نے وعدہ خلافی کرنے کاحکم


سوال

میں نے ایک شخص  کے ذریعہ دبئی میں 2 آئی فون (آئی فون 15پرومیکس 256gb)بک کروائے تھے ،جن کی کل مالیت 10400درہم تھی ،اور میں نے آگے فروخت کرنے  کے  غرض سے اس شخص کے ذریعہ بکنگ کروائے تھے ،لہذا انہوں سے مجھے کہا کہ میں نے آپ کے لیے دوآئی فون بک کروادیے ہیں ، جس پر میں نے آدھی قیمت یہاں پاکستان میں ادا کردی اور طے پایا کہ بقیہ آدھی قیمت دبئی میں جاکر جب آئی فون وصول کروں گا تب دوں گاپھر اس شخص نے کہا دبئی میں میرے بھائی نے آپ کے آئی فون وصول کرلیے ہیں ،لہذا اب دبئی جاکر اپنے آئی فون وصول کرلیں لہذا میں دبئی گیا اور اس شخص کے بھائی سے رابطہ کیا تو اس نے کہا کہ آپ مجھے ایڈریس بتادیں میں آپ کو لینے آتاہوں،لیکن وہ اس کے بعد مجھے لینےنہیں آیااور تین دن تک میں نے ہر ممکن رابطہ کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہوسکا،پھر اس کے بعد جس شخص کے ذریعہ بک کروائی تھیں اس کا smsآیا کہ ہم بہت شرمندہ ہیں ہمارے ایک دوست نے آپ والے دونوں آئی فون 1600درھم میں مارکیٹ میں فروخت کردیے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اب میں نے کاروبار کی غرض سے مذکور ہ انویسمنٹ کی تھی ،لیکن اس قدرر قم لگانے کے باوجود بھی مجھے کسی قسم کا منافع نہ ہو سکا،لہذا اس نقصان کا ذمہ دار کون ہوگا؟

اس رقم میں میرے ایک پار ٹنر کی بھی رقم ہے لہذا اس کا منافع کون ادا کرے گا؟

میرے آنے جانے کا ٹکٹ کا خرچہ کس کے ذمہ ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص  کسی  دوسرے شخص کو خریداری کا وکیل بنائےاور  چیز کو متعین نہ کرے تو وکیل کے لیے جائز ہے کہ  چیز کواپنے لیے خرید لے ،لیکن اگر موکل نے چیز متعین کردی تو وکیل اس کو اپنے لئے خرید نہیں سکتا،چنانچہ صورتِ مسئولہ میں جب سائل نےدبئی  میں موجود شخص کو آئی فون خریدنے  کاوکیل بنایااور اس نے سائل کے نام پر دوآئی فون بک کروائے،اور اس پر سائل نے آدھی قیمت ادا کردی،اور مذکورہ شخص نے کہا کہ اس کے بھائی  نے اس کا فون وصول کرلیاہے ،لہذا سائل دبئی  جاکر اس سے فون وصول کرلے ،لیکن سائل جب دبئی  گیا تو اس نے کہا کہ اس نے آئی فون مارکیٹ میں فروخت کردئے ہیں ،تو اس کا فروخت کرنا جائز نہیں تھااب اس آدمی پر لازم ہے کہ دوآئی فون سائل کوحوالہ کرے،لیکن سائل اس سے اپنے دبئی  آنے جانے کے خرچ کی وصول یابی کا حق نہیں رکھتاالا یہ کہ دبئی والا یہ  کہتا کہ آپ دبئی آجائیں، میں آنے جانے کاخرچہ دیدوں گاتو اس پر خرچہ ادا کرنا لازم ہوتا ورنہ آپس میں مصالحت کے طور پر کچھ کرلیں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ 

باقی پارٹنر  اس وقت نفع  کا مستحق ہوتاہے  جب  کاروبار میں نفع ہوا ہو،اس کاروبار میں جب آپ کو نفع   نہیں ہوا تو  پارٹنر  بھی نفع کا مستحق نہیں  ہوا وہ  صرف اپنی اصل  رقم وصول کرسکتاہے۔

قرآن کریم   میں باری تعالٰي کا ارشاد ہے:

"وَأَوفُواْ بِٱلعَهدِ إِنَّ ٱلعَهدَ كَانَ مَسـٔولًا."[سورۃ الإسراء: 43] 

صحيح البخاری  میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا ‌وعد ‌أخلف، وإذا اؤتمن خان."

(باب علامة المنافق:1 /16،ط:دار طوق النجاۃ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"الوكيل بشراء شيء بغير عينه إذا اشترى يكون مشتريا لنفسه، إلا أن ينويه للموكل." 

(كتاب الوكالة،فصل في بيان حكم التوكيل، ج:6،ص:31،ط:رشيدية)

الدر المختارمیں ہے:

" المسلمون عند شروطهم."

(كتاب الجهاد، باب المستأمن،ص:366،ط: سعيد)

السنن الكبرى ميں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه."

(كتاب الغضب،باب من غصب لوحا فأدخله في سفينة أو بنى عليه جدارا:6 /166،رقم: 11545 ،ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144503102313

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں