بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا کرونا وائرس سے انتقال کرنے والا شہید ہے؟


سوال

اگر کسی کا کرونا میں انتقال ہو جائے تو کیا وہ شہید کے درجہ میں ہے؟

 

جواب

شہادت کی دو قسمیں ہیں:  ایک شہادت حقیقی اور  دوسری  شہادت حکمی ۔

شہید حقیقی اس کو کہتے ہیں کہ کوئی مسلمان اللہ کے راستہ میں اللہ کے دین  کی سربلندی کے لیے شہید ہوجائے یاظلمًا اس طور پر قتل کردیا جائے کہ اس کے قتل کے بدلے اصلًا قصاص واجب ہو، اس کو نہ تو غسل دیا جاتا ہے اور نہ ہی کفن،  بلکہ  ان ہی کپڑوں میں اس کی نماز جنازہ پڑھ کراس کو دفن کردیا جاتا ہے  جو اس نے پہنے ہوئے ہوں۔

شہید  کی دوسری قسم شہید حکمی ہے جس کو شہید اخروی بھی کہتے ہیں،  یعنی: ثواب اور اُخروی اعتبار سے وہ شہید کہلائے گا، یہ وہ شخص  ہے وہ جو  كسي تكليف ده بیماری  وغیرہ کی حالت  میں  مرجائے،حدیث میں آتا ہے جو شخص طاعون میں مرجائے یا ڈوب کر مرجائے یا جل کر مرجائے یا پیٹ کی بیماری سے  مرجائے، یا  ذات الجنب  بیماری سے مرجائے، یا دب کر مرجائے، یا عورت دردِ زہ کی وجہ سے مرجائے، تو یہ سب  شہید ہیں۔

کرونا  مرض بھی ان اسبابِ شہادت    بیماریوں میں سے بعض کے    حکم میں  آتا ہے:

1:                            کرونا کا مرض چوں کہ ایک وبائی مرض ہے، اس لیے طاعون کی وبا  کی طرح  اس سے وفات پانے والا شخص بھی  شہید حکمی کہلائے گا۔

2:            جس طرح    پیٹ کی بیماری سے  مرنے والا شخص شہید کہلاتا ہے ، اسی طرح  کرونا کے  مرض میں مبتلا بعض اشخاص جگر اور گردوں  کے متاثر ہونے سے فوت ہوجاتے ہیں؛ اس  لیے ایسا شخص  بھی  پیٹ  کے مرض سے فوت ہونے والوں  میں شامل ہوکر شہید وں میں داخل ہو گا۔

3:   اسی طرح ذات الجنب  بیماری  کو حدیث میں اسبابِ شہادت میں سے شمار کیا گیا ہے، اس کے تحت  میں بھی کرونا وائرس آسکتا ہے، کیوں کہ جب وہ خطرناک صورت اختیار کرتی ہے تو اس میں بھی کرونا کی طرح پھیپڑوں کا خراب ہونا ، بخار ، کھانسی اور سانس کی تکلیف شروع ہوجاتی ہے۔

4:      کرونا  تپ دق ٹی بیTB)کی بیماری کےحکم میں بھی آتاہے، بلکہ (TB)) سے بھی شدید نوعیت کی بیماری ہے؛ کیوں کہ اس مرض میں پھیپھڑے میں پھوڑا نکل آتا ہے، اور بخار بھی ہوتا ہے،  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (سلّ یعنی: تپ دق کا مرض باعث شہادت ہے)  تو  جس شخص کے پھیپھڑے کورونا وائرس کی وجہ سے تلف ہو جائیں اور اسی وجہ سے اس کی موت بھی واقع ہو تو اس کے  لیے شہادت کی امید کی جاسکتی ہے۔

شہید حکمی کا حکم یہ ہے کہ اس کے ساتھ دنیا میں شہیدوں والا معاملہ نہیں کیا جائے گا، یعنی اسے غسل اور کفن دیاجائے گا،البتہ  ثواب اور اُخروی اعتبار سے اس کو شہادت کا رتبہ ملے  گا۔

"عن عتيك بن الحارث بن عتيك -وهو جد عبد الله بن عبد الله أبو أمه- أنه أخبره أن جابر بن عتيك أخبره: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء يعود عبد الله بن ثابت، فوجده قد غلب، فصاح به رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يجبه، فاسترجع رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: "غلبنا عليك يا أبا الربيع" فصاح النسوة وبكين، فجعل ابن عتيك يسكتهن، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "دعهن، فإذا أوجب فلا تبكين باكية"، قالوا: وما الوجوب يا رسول الله؟ قال: "الموت"،قالت ابنته: والله! إن كنت لأرجو أن تكون شهيدًا؛ فإنك قد كنت قضيت جهازك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله قد أوقع أجره على قدر نيته، وما تعدون الشهادة؟ " قالوا: القتل في سبيل الله تعالى، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الشهادة سبع سوى القتل في سبيل الله: المطعون شهيد، والغرِق شهيد، وصاحب ذات الجنب شهيد، والمبطون شهيد، وصاحب الحريق شهيد، والذي يموت تحت الهدم شهيد، والمرأة تموت بجُمع شهيد.

أخرجه أبوداود في سننه في باب ما جاء في فضل من مات في الطاعون (5/ 27) برقم (3111)،ط. دار الرسالة العالمية، الطبعة: الأولى، 1430 هـ - 2009 م)

عن سلمان قال: أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بالزكاة ثلاث مرار، فقال: «ما تعدون الشهيد فيكم؟» قالوا: الذي يقتل في سبيل الله، قال: «إن شهداء أمتي إذن لقليل، القتل في سبيل الله شهادة، والطاعون شهادة، والنفساء شهادة، والحرق شهادة، والغرق شهادة، والسلّ شهادة، والبطن شهادة».

أخرجه الطبراني في الكبير(6/ 247) برقم (6115)،ط. مكتبة ابن تيمية - القاهرة، الطبعة: الثانية)

التنقیح فی شرح مشکاة المصابیح میں ہے:

"وقوله: (والمبطون) قيل: المراد به من مات من إسهال، أو استسقاء وانتفاخ بطن، أو ممن يشتكي بطنه، أو من يموت بداء بطنه مطلقًا، أقول: وإنما كان بهذه المعاني من الشهداء لشدتها وكثرة أَلَمها."

(التنقيح  في شرح  مشكاة المصابيح: كتاب الجنائز، باب عيادة المريض وثواب المرض (4/ 27)،ط. دار النوادر، دمشق - سوريا، الطبعة: الأولى، 1435 هـ - 2014 م)

فتح الباري لابن الحجر میں ہے: 

وفيه: والسلّ، وهو بكسر المهملة وتشديد اللام.

(فتح الباري لابن الحجر: باب الشهادة سبع سوى القتل (6/ 43)،ط. دار المعرفة - بيروت، 1379)

فيض القدير ميں  ہے:

(السل شهادة) هو قرحة في الرئة معها حمى دقية.

(فيض القدير: حرف السين، فصل في المحلى بأل من هذا الحرف (4/ 145) ، رقم الحديث (4823)،ط. المكتبة التجارية الكبرى، مصر، الطبعة: الأولى، 1356)

شرح النووي على صحيح مسلم میں ہے:

وأما ( الطاعون):فهو قروح تخرج في الجسد فتكون في المرافق أو الآباط أو الأيدي أو الأصابع وسائر البدن، ويكون معه ورم وألم شديد، وتخرج تلك القروح مع لهيب، ويسود ما حواليه، أو يخضر، أو يحمر حمرة بنفسجية كدرة، ويحصل معه خفقان القلب والقيء. وأما ( الوباء ) فقال الخليل وغيره : هو مرض الطاعون ، وقال : هو كل مرض عام، والصحيح الذي قاله المحققون: أنه مرض الكثيرين من الناس في جهة من الأرض دون سائر الجهات، ويكون مخالفا للمعتاد من أمراض في الكثرة وغيرها ، ويكون مرضهم نوعًا واحدًا بخلاف سائر الأوقات، فإن أمراضهم فيها مختلفة.

(شرح النووي على صحيح مسلم: باب الطاعون والطيرة والكهانة ونحوها (14/ 204)،ط. دار إحياء التراث العربي - بيروت،الطبعة الطبعة الثانية ، 1392)

فتح الباري لابن الحجر میں ہے: 

هو(ذات الجنب) ورم حارّ يعرض في الغشاء المستبطن للأضلاع، وقد يطلق على ما يعرض في نواحي الجنب من رياح غليظة تحتقن بين الصفاقات والعضل التي في الصدر والأضلاع فتحدث وجعا، فالأول: هو ذات الجنب الحقيقي الذي تكلم عليه الأطباء، قالوا: ويحدث بسببه خمسة أعراض: الحمى، والسعال، والنخس، وضيق النفس،والنبض المنشاري. ويقال لذات الجنب أيضًا: وجع الخاصرة، وهي من الأمراض المخوفة لأنها تحدث بين القلب والكبد وهي من سيء الأسقام.

(فتح الباري لابن الحجر: كتاب الطب، باب ذات الجنب (10/ 172)،ط. دار المعرفة - بيروت، 1379) 

فقط، واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201562

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں