بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروباری آدمی کا ہندو آدمی کو اس کی عید پر مبارک باد کہنے کا حکم


سوال

کاروباری شخص کاہندو آدمی کو اس کی عید پر مبارک باد دینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ ہندؤوں کی عید کو دیوالی کہتے ہیں، یہ موسمِ بہار میں منایا جاتاہے، ہندو آدمی کو اس کی عید پر  مبارک باد دینا یا کسی بھی غیر مسلم کے  مذہبی تہوار کے موقع پر انہیں مبارک باد دینا  اور مسلمان کا جواب میں مبارک باد دینا دونوں جائز نہیں، کیونکہ ابتداءً مبارک باد دینا یا مبارک بادی کا جواب دینا گویا ان کے نقطۂ نظر کی تائید ہے، جب کہ غیر مسلموں کے مذہبی تہوار مشرکانہ اعتقادات پر مبنی ہوتے ہیں،  مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے شرک سے بے زاری اور لاتعلقی کا اظہار ضروری ہے، اور مذہبی اعتقادات میں شرعی اَحکام کی تعمیل لازم ہے، اور ساتھ ساتھ ہندؤوں کی عید پر مبارک باد دینا یہ ان سے قلبی محبت کی علامت ہے اور کفار کے ساتھ قلبی تعلق قائم کرنا قطعاً جائز نہیں ہے، اس سلسلہ میں کسی کی رضا یا ناراضی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے، مخلوق کی اطاعت اور ان کی رضا کی بجائے خالق کی اطاعت اور اس کی رضا کو مقدم رکھنا لازم ہے،چنانچہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’بات یہ ہے کہ دو شخصوں یا دو جماعتوں میں تعلقات کے مختلف درجات ہوتے ہیں:

ایک درجہ تعلق کا قلبی موالات یا دلی موددت ومحبت ہے، یہ صرف مومنین کے ساتھ مخصوص ہے غیر مومن کے ساتھ مومن کا یہ تعلق کسی حال میں قطعًا جائز نہیں۔

دوسرا درجہ مواسات کا ہے، جس کے معنی ہیں ہم دردی و خیر خواہی اور نفع رسانی کے، یہ بجز کفار اہلِ حرب کے جو مسلمانوں سے برسر پیکار ہیں، باقی سب غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے۔ سورۂ  ممتحنہ کی آٹھویں آیت میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے، جس میں ارشاد ہے:

"﴿لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ﴾" [الممتحنة:8]

"یعنی اللہ تعالیٰ تم کو منع نہیں کرتا ان سے جو لڑتے نہیں تم سے دین پر اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان کے ساتھ احسان اور انصاف کا سلوک کرو"۔

تیسرا درجہ مدارات کا ہے، جس کے معنٰی ہیں ظاہری خوش خُلُقی اور دوستانہ برتاؤ کے، یہ بھی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے، جب کہ اس سے مقصود ان کو دینی نفع پہنچانا ہو یا وہ اپنے مہمان ہوں، یا ان کے شر اور ضرر رسانی سے اپنے آپ کو بچانا مقصود ہو، سورۂ آل عمران کی آیت مذکورہ میں ﴿ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً سے یہی درجہ مدارات کا مراد ہے، یعنی کافروں سے موالات جائز نہیں، مگر ایسی حالت میں جب کہ تم ان سے اپنا بچاؤ کرنا چاہو، اور چوں کہ مدارات میں بھی صورت موالات کی ہوتی ہے؛ اس لیے اس کو موالات سے مستثنی قرار دے دیا گیا۔ (بیان القرآن)‘‘

 لہذا صورتِ مسئولہ میں کاروباری آدمی کے لیے کسی ہندو آدمی کو اس کی عید پر مبارک بادینا یا مبارک بادی کے جواب میں مبارک باد کے کلمات کہنا جائز نہیں۔

المفاتیح فی شرح المصابیح میں ہے:

"عن ابن عمر - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "‌من ‌تشبه ‌بقوم فهو منهم".

قوله: "‌من ‌تشبه ‌بقوم فهو منهم"؛ يعني: من شبه نفسه بالكفار في اللباس وغيره من المحرمات، فإن اعتقد تحليله فهو كافر، وإن اعتقد تحريمه فقد أثم وكذلك من شبه نفسه بالفساق، ومن شبه نفسه بالنساء في اللباس وغيره فقد أثم".

(کتاب اللباس، ج:5، ص:18، ط:إدارة الثقافة الإسلامي) 

البحر الرائق  میں ہے:

"قال - رحمه الله -: (والإعطاء باسم النيروز والمهرجان لايجوز) أي الهدايا باسم هذين اليومين حرام بل كفر، وقال أبو حفص الكبير - رحمه الله -: لو أن رجلاً عبد الله تعالى خمسين سنةً ثم جاء يوم النيروز و أهدى إلى بعض المشركين بيضةً يريد تعظيم ذلك اليوم فقد كفر وحبط عمله، وقال صاحب الجامع الأصغر: إذا أهدى يوم النيروز إلى مسلم آخر و لم يرد به تعظيم اليوم و لكن على ما اعتاده بعض الناس لايكفر، و لكن ينبغي له أن لايفعل ذلك في ذلك اليوم خاصةً و يفعله قبله أو بعده؛ لكي لايكون تشبيهاً بأولئك القوم، وقد قال صلى الله عليه وسلم: «من تشبه بقوم  فهو منهم». وقال في الجامع الأصغر: رجل اشترى يوم النيروز شيئاً يشتريه الكفرة منه وهو لم يكن يشتريه قبل ذلك إن أراد به تعظيم ذلك اليوم كما تعظمه المشركون كفر، وإن أراد الأكل والشرب والتنعم لايكفر".

(مسائل متفرقة فی الإکراہ، ج:8، ص:555،ط: دار الکتاب الإسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403102196

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں