بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کی دکان میں شرکت کرنا


سوال

 میں ایک چشمے کی دوکان پہ کام کرتا ہوں، مجھے دوسری جگہ سے کام کی آفر ہے، جن کی طرف سے آفر ہے وہ کرائے کی دوکان میں پچھلے چھ سال سے چشمہ کا کام چلا رہے ہیں، اب وہ کچھ اور کام کرنا چاہتے ہیں اور مجھ سے چشمے کی دوکان میں پارٹنرشپ کرنا چاہتے ہیں، اور ابھی پیسے بھی نہیں لیں گے، کچھ مہینے مجھے ورکنگ پارٹنرشپ پہ رکھیں گے، اور بعد میں مجھے دوکان میں مال ڈلوانا ہو گا، لیکن پھر بھی میری انویسٹمنٹ ان کے برابر نہیں ہوگی، اور منافع پھر بھی آدھا آدھا ہوگا، مجھے دوکان پہ پورا دن کا ٹائم دینا ہوگا، اور وہ کچھ مہینے بعد ٹائم بہت کم دینگے، یہ کئی دن تک نہیں بھی آئیں گے،تو ایسی صورت میں میرے لیئے شریعت میں کیا حکم ہے ؟

جواب

 مذکورہ شراکت درست ہے،البتہ یہ شراکت نفع اور نقصان دونوں کی بنیاد پر ہوگی۔

نفع کا تعیین فیصد/حصص کے اعتبار سے کیا جائے ،مثلاً نفع دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہوگا، یا کسی ایک فریق کے لیے ساٹھ فیصد اور دوسرے کے لیے چالیس فیصد یادونوں کے سرمایہ کے بقدرنفع تقسیم کیاجائے، یااگر دونوں شریک کام کرتے ہوں اور ایک شریک زیادہ محنت کرتاہے یاکاروبار کوزیادہ وقت دیتاہے تو اس کے لیے نفع کی شرح باہمی رضامندی سے بڑھانادرست ہے، اورنفع کے حصول کےیہ طریقے جائز ہیں۔ اگر دونوں شریک ہیں، لیکن ایک شریک کام کرتاہے دوسرا شریک کام نہیں کرتا تو جو کام کرتاہے اس کے لیے نفع کا تناسب سرمائے کے تناسب سے زیادہ مقرر کرنا درست ہوگا، لیکن جو شریک کام نہیں کرتا اس کے لیے نفع کا تناسب اس کے سرمائے سے زیادہ مقرر کرنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ ایسی صورت میں سرمائے کے تناسب سے نفع تقسیم ہوگا۔

البتہ کاروبار میں رقم لگاکر نفع کو متعین کردینامثلاً یہ کہناکہ ہر  مہینے یا اتنی مدت بعد مجھے نفع کے طور پر اتنی رقم دی جائے، یا انویسمنٹ کا اتنا فیصد دیا جائے  یہ طریقہ درست نہیں ہے۔حاصل یہ ہے کہ  متعین نفع مقرر کر کے شراکت داری کرنا شرعاً ممنوع ہے۔

باقی زیر نظر مسئلہ میں جب تک مذکورہ کاروبار میں سائل کا سرمایہ نہیں لگ جاتا ہے اس سے پہلے مضاربت کا معاملہ باہمی رضامندی سے کیا جا سکتا ہے، مضاربت کے معاملہ میں سائل کی حیثیت مضارب بھی یعنی محنت کرنے والے کی ہوگی، اور چشمہ کی دکان چلانے والے شخص کی حیثیت رب المال کی ہوگی، اور ایسی صورت میں مضاربت کے شرعی شرائط پر عمل کرنا ضروری ہوگا، کہ دونوں کا نفع شرح فیصد کے اعتبار سے متعین کر لیا جائے، اور مضاربت کہ معاملہ میں اگر نقصان ہو جائے تو اس نقصان کو نفع سے پورا کیا جائے گا، اگر نفع سے نقصان پورا ہو جائے تو فبھا،وگر نہ اس نقصان کے ذمہ داری انویسٹر رب المال کی ہوگی، الا یہ کہ اگر وہ نقصان سائل مضارب کی غفلت سے ہوا ہو تو وہ مکمل نقصان سائل کا ہوگا، باقی شرکت کے معاملہ میں ہر شریک اپنے سرمایہ کے تناسب سے  نقصان کو برداشت کرے گا ۔

اسی طرح نقصان میں بھی شریک ہوناشرکت کے جواز کے لیے شرط ہے،  یعنی سرمائے کے تناسب سے ہر ایک شریک نقصان میں بھی شریک ہوگا۔ یا اگر مضاربت کی صورت میں عقد ہوا ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ اولاً خسارہ نفع میں سے پورا کیا جائے گا، اگر خسارہ پورا ہونے کے بعد بھی کچھ نفع باقی رہتاہے تو نفع کا جو تناسب باہمی رضامندی سے طے ہوا ہو ، اسی اعتبار سے بقیہ نفع تقسیم کیا جائے گا، اور اگر کل نفع خسارے میں چلا گیا تو مضارب (ورکنگ پارٹنر) کو کچھ نہیں ملے گا، اور سرمایہ دار کو بھی نفع نہیں ملے گا، اور اگر نفع کے ساتھ ساتھ سرمائے میں سے بھی کچھ رقم یا کل رقم ڈوب گئی تو رب المال (سرمایہ دار) کو نقصان برداشت کرنا پڑے گا، بشرطیکہ مضارب کی طرف سے تعدی ثابت نہ ہو۔

نیز دونوں شریکوں میں سے ہر ایک کو شرکت ختم کرنے کا اختیار ہوگا،جب جو فریق چاہے شرکت ختم کرسکتاہے۔اور شرکت ختم کرنے کی صورت میں سرمایہ سے خریداجانے والا جو سامان ہوگا اس مشترکہ سامان کی قیمت لگاکر ہر ایک کا حصہ اور منافع اپنی اپنی سابقہ شرائط کے مطابق تقسیم کرلیں گے، اور چاہے تو ہر ایک شریک اپنے موجود سرمایہ کی رقم کے بقدر سامان لے لے یا دوسرا فریق باہمی رضامندی سے سامان اپنے پاس رکھ کر نقد رقم دے دے دونوں صورتیں درست ہیں۔(امدادالاحکام ص:340)

لیکن یہ شرط رکھ کر شرکت کرنا کہ جب شرکت ختم ہوگی بہرصورت  میں اپنی مکمل رقم واپس لوں گا،  یعنی نقصان میں شریک نہ ہونا، یہ صورت  ناجائز ہے اور اس صورت میں حاصل کیاجانے والانفع بھی حلال نہیں ہے۔

"مبسوط سرخسی" میں ہے:

"والشريكان في العمل إذا غاب أحدهما أو مرض أو لم يعمل وعمل الآخر فالربح بينهما على ما اشترطا؛ لما روي أن رجلاً جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أنا أعمل في السوق ولي شريك يصلي في المسجد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لعلك بركتك منه"، والمعنى أن استحقاق الأجر بتقبل العمل دون مباشرته والتقبل كان منهما وإن باشر العمل أحدهما، ألا ترى أن المضارب إذا استعان برب المال في بعض العمل كان الربح بينهما على الشرط أو لا ترى أن الشريكين في العمل يستويان في الربح وهما لا يستطيعان أن يعملا على وجه يكونان فيه سواء، وربما يشترط لأحدهما زيادة ربح لحذاقته وإن كان الآخر أكثر عملاً منه، فكذلك يكون الربح بينهما على الشرط ما بقى العقد بينهما وإن كان المباشر للعمل أحدهما ويستوي إن امتنع الآخر من العمل بعذر أو بغير عذر لأن العقد لا يرتفع بمجرد امتناعه من العمل واستحقاق الربح بالشرط في العقد".

(كتاب الشركة،ج:11،ص:157،ط:دار المعرفة بيروت لبنان)

"فتاوی شامی" میں ہے:

"(قوله: والربح إلخ) حاصله أن الشركة الفاسدة إما بدون مال أو به من الجانبين أو من أحدهما، فحكم الأولى أن الربح فيها للعامل كما علمت، والثانية بقدر المال، ولم يذكر أن لأحدهم أجراً ؛ لأنه لا أجر للشريك في العمل بالمشترك كما ذكروه في قفيز الطحان، والثالثة لرب المال وللآخر أجر مثله (قوله: فالشركة فاسدة)؛ لأنه في معنى بع منافع دابتي ليكون الأجر بيننا، فيكون كله لصاحب الدابة؛ لأن العاقد عقد العقد على ملك صاحبه بأمره، وللعاقد أجرة مثله؛ لأنه لم يرض أن يعمل مجاناً، فتح".

(‌‌‌‌كتاب الشركة،فصل في الشركة الفاسدة،4/326،ط:دارالفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو استأجره ليحمل له نصف هذا الطعام بنصفه الآخر لا أجر له أصلًا؛ لصيرورته شريكًا ... (ولو) استأجره (لحمل طعام) مشترك (بينهما فلا أجر له)؛ لأنه لايعمل شيئًا لشريكه إلا ويقع بعضه لنفسه فلايستحق الأجر (كراهن استأجر الرهن من المرتهن)؛ فإنه لا أجر له لنفعه بملكه ... (قوله: فلا أجر له) أي لا المسمى ولا أجر المثل، زيلعي؛ لأن الأجر يجب في الفاسدة إذا كان له نظير من الإجارة الجائزة، وهذه لا نظير لها، إتقاني، وظاهر كلام قاضي خان في الجامع أن العقد باطل؛ لأنه قال: لاينعقد العقد".

(کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ، ج:6،ص:57،ط:دارالفکر )

و فیہ ایضاً:

"وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز أيضاً على الشرط، ويكون مال الدافع عند العامل مضاربةً، ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لايصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعةً لكل واحد منهما ربح ماله".

(کتاب الشرکۃ، مطلب فی شرکۃ العنان، ج:6،ص:312، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100427

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں