بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروبار میں معاون بھائی کا جائیداد اور کاروباری سرمایہ میں حصہ طلب کرنے کا حکم


سوال

میرے والد رکشہ چلاتے تھے، دن رات محنت مزدوری کر کے منافع  والدہ کو دیا کرتے تھے ،بعدازاں والدہ نے چھوٹی سی کمیٹی رکھ لی تو انہوں نے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر ہوٹل پارٹنری پہ لے  لیا،کچھ وقت گزرا تو  منافع کمانے کے بعد والد صاحب نے دوسری جگہ ہوٹل پارٹنری پہ لے لیا اور ایسے حساب کتاب چلتا رہا ،پھر ایک ڈیڑھ سال بعد لاہور سے چاچو آگئے، چاچو کو بچپن سے والد نے ہی پال پوس کر بڑا کیا  تھا،وقت کے ساتھ ساتھ والد صاحب کا  کاروبار بڑھتا گیااور چاچوکے ہوٹل میں آنے کے بعد والد نے ایک پلاٹ بھی خرید لیا ،لیکن اس میں چاچو کا ایک پیسہ بھی نہیں لگا ہوا ہے، ایسے میں والد نے تیسری جگہ ہوٹل بھی لگایا ،جب چاچو کاروبار میں آئے تھے تو ان کو کچھ کام کاج نہ آتا تھا لیکن والد صاحب نے ان کو سب کچھ سکھایا اور  بھائی بندی کی وجہ سے کاؤنٹر پر بٹھا دیا ،سمجھیں کہ صرف مینجمنٹ کا کام ان کے ہاتھ میں دیا  باقی دیکھ بھال اور ضروری سامان والد صاحب خود لے آتے تھے ،چاچو کے مقابلے میں میرا بڑا بھائی بھی کام سر انجام دیتا تھا ۔

مگر اب کچھ معاملات خراب ہو گئے ہیں ، والد نے  انہیں کاروبار سے ہٹا دیا ہے تو اب کل جائیداد کا آدھا حصہ مانگتے ہیں اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں بیٹے کا کوئی  حصہ نہیں بنتا حالانکہ یہ کاروبار وراثتی تو نہیں ہے ،حالانکہ  جتنی مدت چاچو نے ہمارے ساتھ گزاری نان و نفقہ برابر ملتا تھا ،بالکل بغیر کسی نا انصافی کے ان کی شادی اور دیگر گھریلو اخراجات میں  لاکھوں روپے لگائےتھے ۔ مگر اب والد اس کو جائیداد کا تیسرا حصہ خوشی سے دینا چاہتے ہیں، لیکن وہ آدھا حصہ مانگتے ہیں ،لہذااس مسئلہ میں رہنمائی فرمائیں۔

وضاحت :

اجرت طے نہیں ہوئی تھی ، والد صاحب اپنی مرضی  سے سب کو نفع برابر دیتے تھے ۔

ایک اور  بات واضح کرتا چلوں کہ اس میں اس بھائی نے  کسی بھی قسم کی انوسٹمنٹ نہیں کی تھی ۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کی  ذکر کردہ تفصیل اگر واقعہ کے عین مطابق ہے کہ سائل کے والد نے اپنا ذاتی سرمایہ لگا کر ہی تما م ہوٹل کھولے تھے اور پھر بعدمیں ان کے مذکورہ بھائی ان ہوٹلوں کو چلانے ، کام کاج کی دیکھ بھال کی غرض سے کام کرتے اور ماہانہ خرچہ وصول کرتے رہے اور  بھائی کا مذکورہ ہوٹلوں کے قیام میں کسی قسم کا سرمایہ نہیں لگا یاتھا ، تو اس صورت میں مذکورہ بھائی کی حیثیت معاون و مددگار کی تھی ، اور ہوٹل ، جائیداد اور دیگر سرمایہ سائل کے والد کا ہی ہے ، اب اگر سائل کے والد باہمی رضامندی سے اس بھائی کو کاروبار کا تیسرا حصہ دینے پر راضی ہیں تو یہ بھی ان کی طرف سے تبرع اور احسان ہے ، سائل کے چاچا کا اُسے رد کرکے آدھے حصے کا مطالبہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لايجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي، كذا في البحر الرائق."

( باب التعزیر،ج:2 ،ص:167،ط؛رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے :

"لما في القنية الأب وابنه ‌يكتسبان ‌في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له."

(كتاب  الشرکۃ ، فصل  فی الشرکۃ الفاسدۃ ، ج:4 ، ص:325 ،ط:ايچ ايم سعيد)

شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"يلزم رضا الواهب في نفاذ الهبة والهدية والصدقة والإبراء."

(المادۃ :760 ،ج:2 ، ص:453 ، ط:دار الجیل)

فتاوی  شامی میں ہے :

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) وفي الرد :فيشترط القبض قبل الموت، ولو كانت في مرض الموت للأجنبي."

(کتاب الہبہ، ج:5 ، ص:690 ،ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101836

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں