بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروبار میں لگائی گئی رقم پر زکات کا حکم


سوال

میں نے دس لاکھ اپنے بھائی کے کام میں انویسٹ کیے ہیں جس سے ہر ماہ 28 سے 30 ہزار تک پرافٹ آتا ہے، جس سے میرےگھر کا خرچ چلتا ہے۔ صورتِ مسئولہ میں دس لاکھ کی زکات کتنی نکالیں جب کہ ماہانہ  ملنے والے پرافٹ سے بمشکل گھر کا خرچ  چلتا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ  زکات واجب ہونے کے لیے صاحبِ نصاب ہونا اور زکات کی ادائیگی واجب ہونے کے لیے اس نصاب پر سال گزرنا شرعاً ضروری ہے، لہذا  جس روز کسی عاقل بالغ مسلمان کے پاس بنیادی ضرورت سے زائد نصاب کے بقدر مال جمع ہوجائے اس دن سے وہ شرعاً صاحبِ نصاب شمار ہوتا ہے۔اسی طرح کسی کاروبار میں لگائی ہوئی رقم اور اس کے ذریعے حاصل شدہ نفع (بشرطیکہ وہ نفع سال گزرنے تک باقی ہو) دونوں پر زکوۃ لازم ہوتی ہے۔

لہٰذا آپ نے اپنے بھائی کے کاروبار میں جو رقم انویسٹ کی ہوئی ہے، وہ آپ کی ملکیت ہے، اس رقم کی زکات ادا کرنا آپ پر لازم ہے، حساب کا طریقہ کار یہ ہوگا کہ آپ بھائی سے معلوم کرلیں  کہ آپ کی کتنی  رقم سے قابلِ فروخت تجارتی اشیاء خریدی گئی ہیں، پس ان اشیاء کی قیمتِ فروخت کے اعتبار سے حساب کرکے کل سرمایہ کا ڈھائی فی صد بطورِ زکات ادا کرنا آپ پر لازم ہوگا، البتہ آپ کی جتنی رقم سے تجارت کی ضرورت کی اشیاء (مشینری، ٹیبل، کرسی، ریک وغیرہ)  خریدی گئی ہوں، اتنی رقم پر زکات واجب نہیں ہوگی۔ نفع کی رقم اگر خرچ ہوجاتی ہے، تو اُس کی زکات ادا کرنا آپ پر لازم نہیں ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما أموال التجارة فتقدير النصاب فيها بقيمتها من الدنانير والدراهم فلا شيء فيها ما لم تبلغ قيمتها مائتي درهم أو عشرين مثقالا من ذهب فتجب فيها الزكاة، وهذا قول عامة العلماء.

وأما مقدار الواجب من هذا النصاب فما هو مقدار الواجب من نصاب الذهب والفضة وهو ربع العشر؛ لأن نصاب مال التجارة مقدر بقيمته من الذهب والفضة فكان الواجب فيه ما هو الواجب في الذهب والفضة وهو ربع العشر، ولقول النبي: - صلى الله عليه وسلم - «هاتوا ربع عشور أموالكم» من غير فصل.

وأما صفة الواجب في أموال التجارة فالواجب فيها ربع عشر العين وهو النصاب في قول أصحابنا، وقال بعض مشايخنا: هذا قول أبي يوسف ومحمد وأما على قول أبي حنيفة فالواجب فيها أحد شيئين. إما العين أو القيمة فالمالك بالخيار عند حولان الحول إن شاء أخرج ربع عشر العين وإن شاء أخرج ربع عشر القيمة."

(كتاب الزكاة، فصل أموال التجارة، ج:2، ص:20 -21 ، ط: دار الكتب العلمية)

 فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144408102583

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں