بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروبار میں قادیانی کو شریک کرنے والے سے معاملات کرنا


سوال

ایک مسلمان اور ایک قادیانی کاروبار میں شریک ہوں اور تیسرے آدمی کو پتہ بھی ہو کہ مسلمان اور قادیانی کاروبار میں شریک ہیں، اس کے باوجود وہ شخص ان دو میں سے مسلمان سے کوئی چیز خریدتا ہے۔ اب آیا اس کا اس مسلمان سے خریدنا یابیچنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ قادیانی زندیق اور مرتد کے حکم میں ہیں، یہ اپنے آپ کو مسلمان قرار دیتے ہیں، اور غلام احمد قادیانی کو نبی تسلیم نہ کرنے والے حقیقی مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں، ان سے کسی قسم کا معاشرتی تعلق روا رکھنا شرعًا جائز نہیں، لہذا کسی قادیانی کے ساتھ شراکت داری کرنا شرعًا جائز نہیں، اور غیرتِ ایمانی کے بھی خلاف ہے۔

 صورتِ مسئولہ میں اولاً تو مذکورہ مسلمان  کو سمجھانا چاہیے کہ وہ  قادیانی سے اپنی کاروباری شراکت  فوری طور پر ختم کردے۔

اور اگرمسئلہ بتانے کے باوجود یہ مسلمان شخص ،   قادیانی سے تجارتی تعلق ختم نہ کرے تو ایسے شخص سے خرید و فروخت سے اجتناب کرنا چاہیے، فساق و فجار سے اعلانیہ میل جول/ معاملات رکھنے والوں  سے تعلق رکھنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے، گو اس شخص سے خریدا یا بیچا گیا مال حلال ہوگا، لیکن پھر بھی اس سے اجتناب کرنے ہی میں عافیت ہے۔

فتح الباری" میں ہے:

"(قوله: باب ما يجوز من الهجران لمن عصى).

 أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز؛ لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع، فتبين هنا السبب المسوغ للهجر وهو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها".

(فتح الباری،10/497،ط:دارالمعرفة بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101011

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں