بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروبار میں مختلف سرمایہ کاروں کا مال شامل ہو تو زکوٰة کے حساب میں کس تاریخ کا اعتبار ہوگا؟


سوال

ہم نے خواتین کے عبایہ بنانے کا ایک کاروبار شروع کیا ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ ہم  نےمتحدہ عرب امارات سے کپڑے کی خریداری کری تھی، اور  اکتوبر 2021 کے آخر میں ہمیں کپڑا  موصول ہوا، جبکہ ہم نے جنوری 2022 میں عبایہ بنانے شروع کیے۔

ہمارے جتنے بھی انویسٹرز ہیں، وہ با ضابطہ اپنی  اپنی زکوٰة ادا کرتے ہیں۔

دریافت طلب امور درج ذیل ہیں:

1۔ کاروباری زکوٰة کے حساب میں کس تاریخ کا اعتبار ہوگا؛ یعنی جس تاریخ کو کاروبار شروع کیا گیا ہے، یا ہر انویسٹر کے زکوٰة کی تاریخ کا الگ الگ اعتبار کیا جائے گا؟

2۔ کیا ہر سرمایہ کاری پر الگ الگ سال مکمل ہونا ہر سال ضروری ہے؟ یا سال مکمل ہونا صرف پہلے سال کے لیے ضروری ہے؟

3۔ جیساکہ آپ کو معلوم ہے کہ ہم خام مال امارات سے خریدتے ہیں، اور پاکستانی کرنسی ڈی والیو ہونے کی وجہ سے ہم میں خام مال کی خریداری میں زکوٰۃ کے حساب میں کس قیمت کا اعتبار کریں گے؟ یعنی جس وقت خام مال خریدا گیا، اس وقت کی قیمت کا اعتبار ہوگا، یا مال تیار ہونے کے بعد کی قیمت کا اعتبار ہوگا؟ مثال کے طور پر ایک عبایہ ہمیں 80 کا پڑا، اور اس کی قیمت فروخت مثلا 100 ہے، ہم زکوٰة کے حساب میں اس چیز کی مالیت 80 شمار کریں گے یا 100 شمار کرکے حساب کیا جائے گا۔

جواب

1۔ صورت مسئولہ میں سائل  اگر پہلے سے صاحب نصاب ہو، تو  زکوٰة   کی ادائیگی میں وہی تاریخ معتبر ہوگی، جو پہلے سے چلی آ رہی ہے، مذکورہ کاروبار شروع کرنے والی تاریخ کا اعتبار نہیں ہوگا، اسی طرح  ہر سرمایہ کار اپنی اپنی تاریخوں کے اعتبار سے  زکوٰة ادا کرے گا، البتہ اگر سائل کاروبار  شروع کرنے سے قبل صاحب نصاب نہیں تھا، تو کاروبار شروع کرنے کے بعد جس تاریخ کو وہ صاحب نصاب بنا ، اس تاریخ سے زکوٰة کے سال کا اعتبار کیا جائے گا۔

2۔ ہر سرمایہ کار پر اپنی اپنی تاریخوں کے اعتبار سے زکوٰة کا حساب کرکے اپنی اپنی زکوٰة  ادا کرنا لازم ہوگا۔

3۔ زکوٰة کا حساب کرتے وقت خام مال ( کپڑا ، دھاگہ، نگ وغیرہ) اور  تیار مال ( عبایہ) کی قیمت فروخت کا اعتبار ہوگا، یعنی جس روز زکوٰة کا حساب کیا جائے، اس روز ان اشیاء  کی جو قیمت فروخت ہو، اس کو جمع کرکے کل کا چالیسواں  حصہ یعنی ڈھائی فیصد بطور زکوٰة ادا کرنا لازم ہوگا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وإنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء فيعتبر قيمتها يوم الأداء، والصحيح أن هذا مذهب جميع أصحابنا".

( كتاب الزكوة، فَصْلٌ صِفَةُ الْوَاجِبِ فِي أَمْوَالِ التِّجَارَةِ، ٢ / ٢٢، ط: دار الكتب العلمية)

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:

"وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا: يوم الأداء. قال المحقق: وفي المحيط: ويعتبر يوم الأداء بالإجماع، وهو الأصح، فهو تصحيح للقول الثاني الموافق لقولهما، وعليه فاعتبار يوم الأداء يكون متفقا عليها عنده وعندهما".

(كتاب الزكاة ،باب زكاة الغنم، ٢ / ٢٨٦ ، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144409101204

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں