بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروبار میں لگائی ہوئی رقم پر زکاۃ


سوال

میں نے اپنے کاروبار میں ایک کروڑ روپے لگائے، کیا مجھے اس ایک کروڑ روپے کی زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے یا اس رقم سے ہونے والی آمدنی پر زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے جو رقم کاروبار میں لگائی ہوئی ہے،اس میں سے جتنی رقم سے تجارتی اشیاء خریدی گئی ہیں،اِن تمام قابل فروخت اشیاء کی قیمت فروخت کے اعتبار سے حساب کرکے کل سرمایہ کا ڈھائی فیصد بطور زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا،اسی طرح اس کاروبار سے  جو رقم بطور نفع کے حاصل ہوئی ہے،اگر وہ  استعمال نہیں ہوئی ہے ،تو سال کے پورے ہونے پر اسے بھی سرمایہ والی رقم کے ساتھ شامل کرکے زکوۃ ادا کرنا  لازم ہے، اور اگر زکوٰۃ کی تاریخ آنے سے قبل نفع والی رقم خرچ ہوجاتی ہےتو اس رقم پر زکوۃ واجب نہیں ہے،البتہ  کاروبار والی رقم (ایک کروڑ )سے جتنی بھی تجارت کی ضرورت کی اشیاء (مشینری ،ٹیبل ،کرسی وغیرہ) خریدی گئی ہو ں تو اتنی رقم پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) بالرفع صفة ملك، خرج مال المكاتب....(فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد)....قوله: (وفارغ عن حاجته الأصلية) أشار إلى أنه معطوف على قوله عن دين (قوله وفسره ابن ملك) أي فسر المشغول بالحاجة الأصلية والأولى فسرها، وذلك حيث قال: وهي ما يدفع الهلاك عن الإنسان تحقيقا كالنفقة ودور السكنى وآلات الحرب والثياب المحتاج إليها لدفع الحر أو البرد أو تقديرا كالدين، فإن المديون محتاج إلى قضائه بما في يده من النصاب دفعا عن نفسه الحبس الذي هو كالهلاك وكآلات الحرفة وأثاث المنزل ودواب الركوب وكتب العلم لأهلها فإن الجهل عندهم كالهلاك، فإذا كان له دراهم مستحقة بصرفها إلى تلك الحوائج صارت كالمعدومة، كما أن الماء المستحق بصرفه إلى العطش كان كالمعدوم وجاز عنده التيمم."

(كتاب الزكاة ،سبب افتراضها،2 /259، 262، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144409101324

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں