بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروبار میں لگائی ہوئی رقم اور اس کے منافع پر زکوۃ کا حکم


سوال

ایک آدمی نے ایک سال پہلے چھ لاکھ روپے کاروبار میں لگایا،اوراب ڈیڑھ مہینے ہورہے ہیں کہ وہاں سے بیس ہزار تک کا ماہانہ نفع آرہاہے،کیا اس آدمی پر زکوۃ واجب ہے؟

براہ کرم شرعی طور پر رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے جو رقم کاروبار میں لگائی ہوئی ہے،اس میں سے جتنی رقم سے تجارتی اشیاء خریدی گئی ہیں،اِن تمام قابل فروخت اشیاء کی قیمت فروخت کے اعتبار سے حساب کرکے کل سرمایہ کا ڈھائی فیصد بطور زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا،اسی طرح جو رقم بطور نفع کے حاصل ہوئی ہے،اگر وہ خرچ نہیں ہوئی یا سائل نے وصول نہیں کی ہے،تو سال کے پورے ہونے پر اسے بھی سرمایہ والی رقم کے ساتھ شامل کرکے زکوۃ ادائیگی لازم ہے، اور اگر زکوٰۃ کی تاریخ آنے سے قبل نفع والی رقم خرچ ہوجاتی ہےتو اس رقم پر زکوۃ واجب نہیں ہے،البتہ سائل کی کاروبار والی رقم سے جتنی بھی تجارت کی ضرورت کی اشیاء (مشینری ،ٹیبل ،کرسی وغیرہ) خریدی گئی ہو ں تو اتنی رقم پر زکوۃ واجب نہیں ہے، اگرا س تفصیل کا علم نہ ہو، تو احتیاطاً مکمل رقم پر زکوٰۃ ادا کرے۔

ملاحظہ: سائل نے رقم جس معاہدہ کے تحت کاروبار میں لگائی ہے، بہتر یہ ہے کہ کسی مستند مفتی صاحب کو اس کی تفصیل بتا کر کاروبار  کی شرعی حیثیت معلوم کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) بالرفع صفة ملك، خرج مال المكاتب....(فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد)....قوله: (وفارغ عن حاجته الأصلية) أشار إلى أنه معطوف على قوله عن دين (قوله وفسره ابن ملك) أي فسر المشغول بالحاجة الأصلية والأولى فسرها، وذلك حيث قال: وهي ما يدفع الهلاك عن الإنسان تحقيقا كالنفقة ودور السكنى وآلات الحرب والثياب المحتاج إليها لدفع الحر أو البرد أو تقديرا كالدين، فإن المديون محتاج إلى قضائه بما في يده من النصاب دفعا عن نفسه الحبس الذي هو كالهلاك وكآلات الحرفة وأثاث المنزل ودواب الركوب وكتب العلم لأهلها فإن الجهل عندهم كالهلاك، فإذا كان له دراهم مستحقة بصرفها إلى تلك الحوائج صارت كالمعدومة، كما أن الماء المستحق بصرفه إلى العطش كان كالمعدوم وجاز عنده التيمم."

(كتاب الزكاة ،سبب افتراضها،2 /259+ 262، ط: سعید)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"إن لم يكن عند المكلف مال فاستفاد مالا زكويا لم يبلغ نصابا فلا زكاة فيه ولا ينعقد حوله، فإن تم عنده نصاب انعقد الحول من يوم تم النصاب، وتجب عليه زكاته إن بقي إلى تمام الحول۔

وإن كان عنده نصاب، وقبل أن يحول عليه الحول استفاد مالا من جنس ذلك النصاب أو مما يضم إليه، فله ثلاثة أقسام:

الأول: أن تكون الزيادة من نماء المال الأول. كربح التجارة، ونتاج السائمة، فهذا يزكى مع الأصل عند تمام الحول."

(حرف الزاء ،زكوة المال المستفاد،أثناء  الحول،23 /243، ط: دار السلاسل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100201

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں