بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروبار کے لیے بینک سے لون لینا


سوال

 میرا چھوٹا بھائی کاروبار کرنا چاہ رہا ہے اور کاروبار کے لیے 5 لاکھ کی رقم درکار ہے جو کے میرے پاس موجود نہیں ہے ،اور میں نے اپنے عزیز و اقارب سے بھی پوچھ لیا ہے کوئی بھی پیسے دینے کو تیار نہیں جس کی وجہ سے میرے پاس ایک ہی راستہ بچتا ہے اور وہ ہے بینک لون ،میں گھر  میں سب سے بڑا ہوں اور والد صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے گھر کی ساری ذمہ داریاں مجھ پر ہیں۔ برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں کہ کیا میں بینک سے لون لےلوں؟

جواب

واضح رہے کہ بینک سےلون لے کر جو اضافی رقم دی جاتی ہے وہ سود ہے، جس کا لینا دینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے،چوں کہ کسی  بھی بینک سےلون لینے کی صورت میں سود کا معاہدہ کرنا پڑتا ہے،   اس لیے کسی بھی بینک سے لون لینا  جائز نہیں ہے، لہذا اگر لون لینا ہی ہو تو بینک کے علاوہ کسی اور  سے غیر سودی قرضہ حاصل کر یں،لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے بھائی کا کاروبار شروع کرنے کے لیے بینک سے لون لینا جائز نہیں،کیوں کہ اس میں سودی معاملہ کا  معاہدہ کرنا پڑتا ہے جو کہ ناجائز اور لعنت کاسبب ہے،لہذا اگر کاروبار کرنا ہےتو اپنی طاقت اور استعداد کے بقدر جو کاروبار کرسکتے ہیں وہ کریں،چھوٹے پیمانے سے کام شروع  کردیں۔

حدیث شریف  میں ہے:

"عن جابر رضي الله عنه قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌آ كل ‌الربا وموكله وكاتبه وشاهديه، وقال: هم سواء."

(مشكاة المصابيح ،باب الربوا، ص: 243، ط: قدیمی)

ترجمہ:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُود کھانے والے ، کھلانے والے ، (سُود کا حساب) لکھنے والے  اورسود پر گواہ بننے والے پر لعنت کی ہے۔ ‘‘

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144402101852

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں