بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروبار کے لیے کامیاب جوان پروگرام سے قرض لینا


سوال

کاروبار  کے لیے رقم کی ضرورت  ہے،  دوست احباب ادھار  رقم دینے کو  تیار نہیں،  اگر   ہیں بھی تو جلد واپسی کا تقاضہ کر رہے ہیں،  جب کہ آج کل کے حالات میں نیا کاروبار کے لیے کم از کم دوسال کے بعد ہی قسطوں میں ادائیگی کی گنجائش  ممکن ہے۔ بینکوں میں سودی نظام کی وجہ سے دل نہیں مان رہا اور  اب حکومتی امداد  کامیاب  جوان کے بارے میں پڑھا،  وہاں بھی مارک اپ لفظ پڑھنے کو ملا   تو ان حالات میں اور بیروزگاری کی وجہ سے حکومتی امداد لینا مناسب ہے یا نہیں؟  اور کوئی اور مشورہ ہو تو مستفید فرمائیں!

جواب

 معتبر ذرائع   سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ’’وزیر اعظم کا کامیاب نوجوان‘‘ کے  عنوان سے جو اسکیم شروع ہوئی ہے، وہ  سودی معاملے پر مشتمل ہے، لہذا اس پروگرام کے تحت  قرضہ کا لین دین شرعاً ناجائز  اور  حرام ہے۔

 ارشاد  باری  تعالی  ہے:

﴿ أَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ (البقرة:275)

ترجمہ:” اللہ  تعالیٰ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرارا دیا ہے ۔“

﴿ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُولِه﴾ (البقرة:278)

ترجمہ:” اگر  تم  سودی  کاروبار سے باز نہیں آؤ گے تو  اللہ  تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو۔“

﴿یَمْحَقُ اللّٰهُ الْرِّبَا وَیُرْبِیْ الصَّدَقَاتِ﴾ (البقرة:276)

ترجمہ:” اللہ تعالیٰ سود کو گھٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے  ہیں۔“

اسی طرح بہت سی احادیثِ مبارکہ  میں آپ صلی اللہ  علیہ وسلم نے سود  کی  قباحت بیان فرمائی ہے، ان میں سے چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں:

"عن جابر بن عبدالله رضی الله تعالیٰ عنه قال: لعن رسول الله صلی الله علیه وسلم آکل الرّبا وموکله وکاتبه وشاهدیه، وقال: هم سواء“.  (رواه مسلم)

(البیوع، باب لعن آکل الرّبا وموکله، ص:297، رقم الحدیث:1598، ط: دارالسلام)

ترجمہ:”حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ  علیہ وسلم نے سود کھانے اور سود دینے اور سودی حسابات یا تحریر لکھنے والے اور سودی لین دین پر گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اور فرمایا کہ یہ سب لوگ گناہ میں برابر ہیں۔“

"عن أنس بن مالك رضي الله تعالیٰ عنه قال: ”خطبنا رسول الله صلی الله علیه وسلم فذکر أمر الرّبا وعظَّم شانه وقال: إن الدّرهم یصیبه الرّجل من الرّبا أعظم عندالله الخطیئة من ستّة وثلاثین زنیةً یزنیها الرّجل، وإن أربی الرّبا عرض الرّجل المسلم“.

( الزواجر، الکبیرة الرابعة والثمانون بعد المائة، أکل الربا وإطعامه الخ:378/1،ط:دارالفکر)

ترجمہ:” حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ  علیہ وسلم نے ہم سے خطاب فرمایا اور سود کا خاص تاکید او راہتمام سے ذکر کرتے ہوئے فرمایا:  ایک سودی درہم حاصل کرنا اللہ  کی نظر میں چھتیس (36) مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت گناہ ہے۔  اور فرمایا: سب سے بڑا سود یہ ہے کہ مسلمان کی آبرو پر حملہ کیا جائے۔“

چنانچہ   کوشش  یہ ہی کی جائے کہ کسی سے غیر سودی قرض حاصل کیا جائے  اور اگر بڑی رقم  کا انتظام نہ ہو سکے تو جتنی رقم حلال کی موجود ہو اُسی سے کاروبار شروع کر دے، اگر چہ کاروبار کا حجم چھوٹا ہی کیوں نہ ہو اور اگر یہ  بھی ممکن نہ ہو تو پہلے ملازمت کر لی جائے، اس سے رقم جمع کر کے اس سے کاروبار کر لیا جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200859

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں