بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروبارہ کے حوالہ سے بیٹا والدین کے مشورے پر عمل کرے گا یا استخارہ پر عمل کرے گا ؟


سوال

اگر کسی کاروبارکو شروع کرنے سے پہلے اپنے ماں باپ سے مشورہ کرلیا ، اور وہ کہیں کہ یہ کام شروع نہ کریں،  اور پھر اسی کام کے لیے استخارہ کرنے کے بعد دل اسی کاروبار کو شروع کرنے پر  اس طرح مطمئن ہو جائے کہ اس میں خیر محسوس ہو، تو اس صورت میں والدین کے مشورہ کے مطابق عمل کیاجائے یا پھر استخارہ کے مطابق عمل کیا جائے؟

جواب

 ازروئے شرع اولاد کے ذمے لازم ہے کہ والدین کے شریعت کے موافق ہر جائز حکم کو بجالائے،اگر  اولاد کی طرف سے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور حقوق کی ادائیگی کے باوجود والدین اولاد کا خیال نہ رکھیں،تب  بھی اولاد کو والدین سے سختی سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے،البتہ والدین کے ذمے بھی لازم ہےکہ وہ اپنی اولاد میں ہر ممکن حد تک برابری اور انصاف کریں،اپنی اولاد کی خوشیوں کا خیال رکھیں،انہیں ان کی جائز ضروریات  اور معاملات سے محروم نہ رکھیں،لہذا اگر کوئی شخص کسی قسم کا جائزروزگار/ کاروبار کے حوالہ سے استخارہ کرکے اس کے شروع کرنے کا ارادہ کرے، اور والدین اس کام کو نہ کرنے کا مشورہ دیں تو دیکھ لیا جائے کہ اس کاروبارکی وجہ سے والدین کی خدمت اور حقوق کی ادائیگی میں خلل آئے گا یا نہیں ؟اگر واقعۃً خلل آنے کا اندیشہ ہوتو ان کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے وہ کاروبار شروع نہ کرے،بصورتِ دیگر یعنی اس کاروبار  کے کرنےکے ساتھ ساتھ اگر والدین کی حقوق کی ادائیگی بھی ہوتی رہے،تو مذکورہ کاروبار کے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،تاہم اس حوالہ سے والدین کو بھی راضی کرکے  اعتماد میں لے لیا جائے۔

التفسیر المظہری میں ہے:

"(مسئلة) لا يجوز إطاعة الوالدين إذا امرا بترك فريضة او إتيان مكروه تحريما لان ترك الامتثال لامر الله والامتثال لامر غيره اشراك معنى ولما روينا من قوله عليه السّلام لاطاعة للمخلوق فى معصية الخالق- ويجب إطاعتهما إذا امرا بشئ مباح لا يمنعه العقل والشرع."

(سورۃ لقمان،ج7،ص256،ط:مکتبة رشيدیة)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"وقال محمد - رحمه الله تعالى - في السير الكبير إذا أراد الرجل ‌أن ‌يسافر ‌إلى ‌غير ‌الجهاد لتجارة أو حج أو عمرة وكره ذلك أبواه فإن كان يخاف الضيعة عليهما بأن كانا معسرين ونفقتهما عليه وماله لا يفي بالزاد والراحلة ونفقتهما فإنه لا يخرج بغير إذنهما سواء كان سفرا يخاف على الولد الهلاك فيه كركوب السفينة في البحر أو دخول البادية ماشيا في البرد أو الحر الشديدين أو لا يخاف على الولد الهلاك فيه وإن كان لا يخاف الضيعة عليهما بأن كانا موسرين ولم تكن نفقتهما عليه إن كان سفرا لا يخاف على الولد الهلاك فيه كان له أن يخرج بغير إذنهما وإن كان سفرا يخاف على الولد الهلاك فيه لا يخرج إلا بإذنهما كذا في الذخيرة."

(كتاب الكراهية، الباب السادس والعشرون في الرجل يخرج إلى السفر ويمنعه أبواه أو أحدهما، ج:5، ص:365، ط:دارالفكر)

"آپ کے مسائل اور ان کا حل" ميں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’’ ماں باپ کی بات کس حد تک ماننا ضروری ہے؟

ج… والدین کی فرماں برداری اور ان کی خدمت کے بارے میں واقعی بڑی سخت تاکیدیں آئی ہیں، لیکن یہ بات غلط ہے کہ والدین کی ہر جائز و ناجائز بات ماننے کا حکم ہے، بلکہ والدین کی فرماں برداری کی بھی حدود ہیں، میں ان کا خلاصہ ذکر کردیتا ہوں:

اوّل:… والدین خواہ کیسے ہی بُرے ہوں، ان کی بے ادبی و گستاخی نہ کی جائے، تہذیب و متانت کے ساتھ ان کو سمجھا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ سمجھانا ضروری ہے، لیکن لب و لہجہ گستاخانہ نہیں ہونا چاہیے، اور اگر سمجھانے پر بھی نہ سمجھیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔

دوم:… اگر وہ کسی جائز بات کا حکم کریں تو اس کی تعمیل ضروری ہے بشرطیکہ آدمی اس کی طاقت بھی رکھتا ہو اور اس سے دُوسروں کے حقوق تلف نہ ہوتے ہوں، اور اگر ان کے حکم کی تعمیل اس کے بس کی بات نہیں یا اس سے دُوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے تو تعمیل ضروری نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں جائز نہیں۔

سوم:… اگر والدین کسی ایسی بات کا حکم کریں جو شرعاً ناجائز ہے اور جس سے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، تب بھی ان کے حکم کی تعمیل جائز نہیں، ماں باپ تو ایسا حکم دے کر گناہ گار ہوں گے، اور اولاد ان کے ناجائز حکم کی تعمیل کرکے گناہ گار ہوگی،  آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور ارشادِ گرامی ہے: ’’ لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق‘‘ یعنی جس چیز میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو اس میں کسی مخلوق کی فرماں برداری جائز نہیں، مثلاً: اگر والدین کہیں کہ نماز مت پڑھو، یا دِین کی باتیں مت سیکھو، یا داڑھی مت رکھو، یا نیک لوگوں کے پاس مت بیٹھو  وغیرہ وغیرہ، تو ان کے ایسے اَحکام کی تعمیل جائز نہیں، ورنہ والدین بھی جہنم میں جائیں گے اور اولاد کو بھی ساتھ لے جائیں گے۔

(آپ کے مسائل اور ان کا حل، ج: 8، ص:558، ط:مکتبہ لدھیانوی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100686

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں