بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

کاروبار میں نقصان ہونے کی صورت میں عشر کا لزوم


سوال

ہمارا کھجور کا کاروبار ہے، کھجور کے  باغات میں موجود پھل جب 70 فی صد پک جاتے ہیں، تو ہم ان کو خریدتے ہیں، خریدنے کے بعد بغیر کسی معاہدہ کے ان کھجوروں کو درخت پر ہی لگے  رہنے دیتے ہیں، یعنی خریدتے وقت کھجور  لگے رکھنے یا اتارنے کا کوئی معاہدہ نہیں ہوتا، اور اس پر بیچنے والے  کی دلالۃً رضامندی بھی حاصل ہوتی ہے،ایک ماہ بعد جب کھجوریں مکمل تیار ہوجاتی ہیں، تو اتار کر   آگے بیچتے ہیں، بیچتے وقت  3 صورتوں میں سے کوئی ایک صورت پیش آتی ہے:

1۔ کھجور عمدہ پکتی ہے، ریٹ بھی اچھے لگتے ہیں، ہم بھی اچھا نفع رکھ کر بیچتے ہیں۔

2۔ کھجور درمیانی ہوتی ہے، ریٹ بھی زیادہ نہیں لگتے، قیمتِ خرید پر ہی فروخت کردیتے ہیں۔

3۔ کھجور غیر معیاری اترتی ہے، طلب کم ہونے کی وجہ سے قیمت بھی بہت کم لگتی ہے، لہذا قیمتِ خرید سے بھی کم پر بیچنا پڑتا ہے۔

دریافت طلب امر یہ ہے کہ آخری دو صورتوں میں عشر لازم ہوگا؟ آخری دو صورتوں میں ہمیں ویسے بھی نقصان ہورہا ہوتا ہے، اب اگر عشر کی ادائیگی کریں گے تو مزید نقصان ہوگا۔

جواب

عشر  کا تعلق زمین کی پیداوار سے ہے، زمین کی پیداوار کم ہو یا زیادہ، عمدہ ہو یا غیر معیاری،بہر صورت پیداوار کا  عشر یا نصف عشر (قدرتی پانی کے ذریعہ سیراب ہونے میں عشر اور مصنوعی آلات کے ذریعہ سیراب کرنے میں نصف عشر ) واجب ہے۔ 

صورتِ مسئولہ میں آخری دو صورتوں میں  جن میں نقصان ہورہا ہو، ان میں بھی عشر یا نصف عشر لازم ہے،  کھجور کے ریٹ کم ہونے اور مالی نقصان ہونے کی صورت میں عشر کی ادائیگی ساقط نہیں ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ويجب العشر عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - في كل ما تخرجه الأرض من الحنطة والشعير والدخن والأرز، وأصناف الحبوب والبقول والرياحين والأوراد والرطاب وقصب السكر والذريرة والبطيخ والقثاء والخيار والباذنجان والعصفر، وأشباه ذلك مما له ثمرة باقية أو غير باقية قل أو كثر هكذا في فتاوى قاضي خان سواء يسقى بماء السماء أو سيحا يقع في الوسق أو لا يقع هكذا في شرح الطحاوي."

(کتاب الزکات،الباب السادس فی زکات الزرع والثمار،ج:1،ص:186،دارالفکر)

الدر المختار میں ہے:

"(‌و) ‌تجب ‌في (‌مسقي ‌سماء) ‌أي ‌مطر (‌وسيح) ‌كنهر (‌بلا ‌شرط ‌نصاب) راجع للكل (و) بلا شرط (بقاء) وحولان حول لأن فيه معنى المؤنة ولذا كان للإمام أخذه جبرا ويؤخذ من التركة ويجب مع الدين وفي أرض صغير ومجنون ومكاتب ومأذون ووقف."

(کتاب الزكاة، باب العشر، ج:2، ص:326، ط؛ دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكذا ‌النصاب ‌ليس بشرط ‌لوجوب ‌العشر فيجب العشر في كثير الخارج وقليله ولا يشترط فيه النصاب."

(زكاة الزروع و الثمار، فصل شرائط فرضية زكاة الزروع، ج: 2، ص:59، ط: دار الکتب العلمیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144601101796

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں