بیوی کے پاس آٹھ تولے سونا تھا، اب وہ سونا فروخت کر کے کسی کاروبار میں لگائے ہوئے ہیں، جس سے ماہانہ کچھ رقم مل جاتی ہے، ایک لاکھ کے ساتھ 1500 سے 2000 تک۔ کیا کاروبار میں لگی رقم پر زکوۃ فرض ہے یا سونے کا الگ حساب ہوتا۔
صورتِ مسئولہ میں سونا فروخت کرکے رقم کاروبار میں لگائی ہے تو سال گزرنے کے بعد کاروبار میں لگی ہوئی رقم اور اس کے ذریعہ حاصل شدہ نفع (بشرطیہ کہ نفع کی رقم باقی ہو ) پر زکوۃ اداکرنا واجب ہے، اسی طرح سونا فرخت کر کے رقم کاروبار میں لگا دی ہے جس کا روبار میں رقم لگائی ہے، اس کی قیمت فروخت کے حساب سے زکوۃ ادا کی جائے گی ۔
بدائع الصنائع میں ہے :
"وأما أموال التجارة فتقدير النصاب فيها بقيمتها من الدنانير والدراهم فلا شيء فيها ما لم تبلغ قيمتها مائتي درهم أو عشرين مثقالا من ذهب فتجب فيها الزكاة، وهذا قول عامة العلماء.وأما صفة هذا النصاب فهي أن يكون معدا للتجارة وهو أن يمسكها للتجارة وذلك بنية التجارة مقارنة لعمل التجارة لما ذكرنا فيما تقدم بخلاف الذهب والفضة فإنه لا يحتاج فيهما إلى نية التجارة؛ لأنها معدة للتجارة بأصل الخلقة فلا حاجة إلى إعداد العبد ويوجد الإعداد منه دلالة على ما مر."
(كتاب الزكوة ، فصل في اموال التجارة ،20/2،، دار الکتب العلمیة)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144403100555
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن