بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ دار بیٹے کا والدہ کو کرایہ نہ دینا


سوال

میری والدہ کا شیر شاہ میں ایک مکان ہے، وہ کرایہ پر دیا ہوا تھا، ایک دن میری بھابھی   نے والدہ سے کہا کہ آپ ہمیں یہ مکان کرایہ پر دے دیں، والدہ مان گئیں  اور گھر انہیں کرایہ پر دے دیا، ایک مدت تک کرایہ بھی دیا، لیکن پھر کرایہ دینا بند کردیا یہاں تک کہ والدہ کا 2011 میں انتقال ہوگیا اور مکان کو وراثت میں تقسیم کرنے کا وقت آگیا، اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ بھائی کے ذمے  گزشتہ مدت کا کرایہ لازم ہےیا نہیں؟ جب کہ مکان میں رہائش اختیار کرنے کے وقت کرایہ دینے کا معاہدہ کیا تھا۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل کے  مذکورہ بھائی   کے ذمے  گزشتہ مدت کا کرایہ دینا لازم ہے بشرطیکہ انہوں نے والدہ کو ادا نہ کیا ہو اور  والدہ نے اپنی زندگی میں معاف بھی  نہ کیا ہو اور کرایہ کی مذکورہ رقم ترکہ کے طور پر ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وحكمها وقوع الملك في البدلين ساعةً فساعةً.

(قوله: ساعة فساعة) ؛ لأن المنفعة عرض لاتبقى زمانين، فإذا كان حدوثه كذلك فيملك بدله كذلك قصدًا للتعادل، لكن ليس له المطالبة إلا بمضي منفعة مقصودة كاليوم في الدار والأرض والمرحلة في الدابة، كما سيأتي."

(ج:6، ص:5، کتاب الاجارۃ، شروط الاجارۃ، ط:سعید)

و أیضًا:

"(و) اعلم أن (الأجر لا يلزم بالعقد فلا يجب تسليمه) به (بل بتعجيله أو شرطه في الإجارة) المنجزة، أما المضافة فلا تملك فيها الأجرة بشرط التعجيل إجماعا. وقيل تجعل عقودا في كل الأحكام فيفي برواية تملكها بشرط التعجيل للحاجة شرح وهبانية للشرنبلالي (أو الاستيفاء) للمنفعة (أو تمكنه منه)."

(ج:6، ص:10، کتاب الاجارۃ، شروط الاجارۃ، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100567

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں