میں کرایہ کے مکان میں رہتا ہوں، مالکِ مکان کو میں نے مکان کے ایڈوانس کی مد میں سوا تین لاکھ روپے ادا کیے ہیں، مکان کا کرایہ پانچ ہزار روپے ہے، اس کے علاوہ میرے پاس سونا، چاندی ، سامانِ تجارت اور نقدی وغیرہ کچھ بھی نہیں ہے، اتنی کمائی کرتا ہوں جس سے مشکل سے روزانہ کا گزارہ ہوتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ مالکِ مکان کو ایڈوانس کی مد میں جو رقم میں ادا کی ہے توکیا میرے اوپر اُس کی زکات ہے یا نہیں؟
فتاوٰی ہندیہ میں ہے:
"وأما سائر الديون المقر بها فهي على ثلاث مراتب عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ضعيف، وهو كل دين ملكه بغير فعله لا بدلا عن شيء نحو الميراث أو بفعله لا بدلا عن شيء كالوصية أو بفعله بدلا عما ليس بمال كالمهر وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدية وبدل الكتابة لا زكاة فيه عنده حتى يقبض نصابا ويحول عليه الحول. ووسط، وهو ما يجب بدلا عن مال ليس للتجارة كعبيد الخدمة وثياب البذلة إذا قبض مائتين زكى لما مضى في رواية الأصل وقوي، وهو ما يجب بدلا عن سلع التجارة إذا قبض أربعين زكى لما مضى كذا في الزاهدي."
(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، 175/1، ط: دار الكتب العلمية)
الوسیط فی شرح القانون المدنی میں ہے:
"وقد يودع مبلغ من النقود أو شيئ آخر مما يهلك بالاستعمال و يكون المودع عنده مأذونا له في استعماله، فلا يرده بالذات و لكن يرد مثله، و هذه هي الوديعة الناقصة و هي تعتبر قرضا."
(عقد الوديعة، الفصل الأول أركان الوديعة، الفرع الثاني: المحل والسبب في عقد الوديعة، الأشياء التي يجوز إيداعها، 698/7، ط: دار إحياء التراث العربي)
آپ کے مسائل اور ان کے حل میں ہے:
"کرایہ دار سے ایڈوانس لی ہوئی رقم کا شرعی حکم:
س… مالکِ مکان کا کرایہ دار سے ایڈوانس رقم لینا امانت ہے یا قرضہ ہے؟
ج… ہے تو امانت، لیکن اگر کرایہ دار کی طرف سے استعمال کی اجازت ہو (جیسا کہ عرف یہی ہے) تو یہ قرضہ شمار ہوگا۔"
(کرایہ دار سے ایڈوانس لی ہوئی رقم کاشرعی حکم، 167/7، ط: مکتبہ لدھیانوی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144407102513
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن