قربانی کے حوالے سے ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں ،میں ایک دکاندار ہوں، 9 ماہ قبل کرایہ پر دکان لے کر اپنا کام شروع کیا ہے،دکان کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ جو پرافٹ ہوتا ہے، اس سے دکان کا سامان اور کرایہ ادا کردیا جاتا ہے، یعنی جمع شدہ کوئی رقم نہیں ہے ،لیکن دکان کے مالک کو ایڈوانس کی مد میں ایک لاکھ روپے دیئے تھے ،کیا ایڈوانس کی مد میں دی گئی رقم مبلغ ایک لاکھ پر قربانی واجب ہے یا نہیں؟
واضح رہےکہ دکان کے ایڈوانس کے طور پر مالکِ دکان کو دی گئی رقم ابتداءً امانت اور انتہاءً قرض شمار ہوتی ہے ،لہذا وہ دینِ قوی کے زمرے میں آتی ہے،اور اس رقم پر بالاتفاق زکوۃ لازم ہے ،لہذا قربانی تو بطریقِ اولیٰ واجب ہوگی،مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں سائل نے ایک لاکھ روپے ایڈوانس کی مد میں دیئے ہوئے ہیں ،نیز دکان کے اندر مالِ تجارت بھی ہے لہذا سائل نصاب کے بقدر مال کا مالک ہے ،تو اس پر قربانی واجب ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"له مال كثير غائب في يد مضاربه أو شريكه ومعه من الحجرين أو متاع البيت ما يضحي به تلزم."
(كتاب الأضحية،312/6،ط:سعيد)
الوسیط فی شرح القانون المدنی میں ہے:
"و قد يودع مبلغ من النقود أو شيئ آخر مما يهلك بالإستعمال و يكون المودع عنده مأذونا له في إستعماله فلا يرده بالذات و لكن يرد مثله ،و هذه هي الوديعة الناقصة و هي تعتبر قرضا."
( عقد الوديعة ، الفصل الأول أركان الوديعة ، الفرع الثاني :المحل و السبب في عقد الوديعة ، الأشياء التي يجوز إيداعها ، ج:7، الجزء الأول ، ص: 698، ط: دار إحياء التراث العربي )
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144311101769
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن