میں نے گاڑی خرید کر ٹیکسی کے لیے کریم کمپنی میں دے دی، گاڑی خریدنے کا بھی یہی ارادہ تھا کہ اسے ٹیکسی کے لیے استعمال کرنا ہے، اب اس گاڑی کو ٹیکسی پہ چلانے سے جو منافع ہوتا ہے، اس منافع پہ زکات دینا ہوگی یا گاڑی کی مالیت لگا کر اس کی بھی زکات نکالنی ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ گاڑی کی ویلیو پر زکات لازم نہیں ، البتہ اس سے حاصل شدہ آمدن اگر جمع ہو اور اکیلے یہ آمدن نصاب تک پہنچتی ہو یا دیگر قابل زکات اموال کے ساتھ ملاکر نصاب تک پہنچتی ہو تو سال مکمل ہونے پر اس کی زکات لازم ہوگی۔
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے :
"المطلب الأول : زكاة العمارات والمصانع ونحوها:
اتجه رأس المال في الوقت الحاضر لتشغيله في نواح من الاستثمارات غير الأرض والتجارة، وذلك عن طريق إقامة المباني أو العمارات بقصد الكراء، والمصانع المعدة للإنتاج، ووسائل النقل من طائرات وبواخر (سفن) وسيارات، ومزارع الأبقار والدواجن وتشترك كلها في صفة واحدة هي أنها لا تجب الزكاة في عينها وإنما في ريعها وغلتها أو أرباحها.
وبالرغم من أن جمهور فقهائنا لم ينصوا على وجوب الزكاة في هذا النوع من المستغلات، وقالوا: لا زكاة في دور السكنى وأثاث المنزل وأدوات الحرفة ودواب الركوب، كما ذكرت سابقا، فإني أرى ضرورة الزكاة في غلة العقارات بشروطها الآتية، لوجود علة وجوب الزكاة فيها وهي النماء، والحكم يدورمع علته وجودا وعدما، ولتوفر حكمة تشريع الزكاة فيها أيضا وهي التزكية والتطهير لأرباب المال أنفسهم، ومواساة المحتاجين، والمساهمة في القضاء على الفقر الذي يشغل أنظمة العالم الحاضرة."
(الباب الرابع الزکاۃ وانواعہا،الفصل الاول :الزکاۃ،المبحث السادس،ج:3،ص:1947،دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508102401
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن